بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر ادا کرنے سے پہلے بیوی کا انتقال ہوجائے اور وارثوں صرف شوہر ہی مسلمان ہو تو مہر اور ترکہ کا حکم


سوال

 شوہرنے بیوی کا مہر ادا نہیں کیا تھا کہ بیوی کا انتقال ہوگیا ،کوئی اولاد بھی نہیں ہے، بیوی کے علاوہ پورا خاندان غیرمسلم ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ مہرکی ادائیگی کی صورت کیا ہوگی؟نیز بیوی کا ترکہ کا کیا جائے؟ 

جواب

واضح رہے کہ اگر شوہر نے بیوی کا حق مہر ادا نہ کیا ہو اور بیوی  کا انتقال ہوجائے تو  اس بیوی کا   حق ِ مہر  شوہر  کے  ذمہ ادا کرنا واجب ہے اور وہ مہر اس   کے ترکہ میں شمار ہوکر اس کے ورثاء میں  شرعی حساب سے تقسیم ہوگا۔لیکن چونکہ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کا وارث شوہر ہی ہے اور اس خاندان کے دیگر افراد غیر مسلم ہیں ،اس  کی وجہ سے اس کے وارث نہیں بن سکتے لہذا اس عورت کا مکمل ترکہ شوہر کا ہی شمار ہوگا اور مہر ادا کرنا اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وفي الأشباه أنه يرد عليهما في زماننا لفساد بيت المال 

(قوله: وفي الأشباه إلخ) قال في القنية ويفتى بالرد على الزوجين في زماننا لفساد بيت المال، وفي الزيلعي عن النهاية ما فضل عن فرض أحد الزوجين يرد عليه وكذا البنت والابن من الرضاع يصرف إليها وقال في المستصفى والفتوى اليوم بالرد على الزوجين، وهو قول المتأخرين من علمائنا، وقال الحدادي: الفتوى اليوم بالرد على الزوجين".

(کتاب الفرائض، مسائل الرد، ج:6، ص:788، ط:سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"قال (وإذا مات الزوجان وقد سمى لها مهرا فلورثتها أن يأخذوا ذلك من ميراث الزوج، وإن لم يكن سمى له مهرا فلا شيء لورثتها عند أبي حنيفة. وقالا: لورثتها المهر في الوجهين) معناه المسمى في الوجه الأول ومهر المثل في الوجه الثاني، أما الأول؛ فلأن المسمى دين في ذمته وقد تأكد بالموت فيقضى من تركته، إلا إذا علم أنها ماتت أولا فيسقط  نصيبه من ذلك. 

(قوله على ما نبينه) يعني في المسألة التي تليها من غير فصل، وهي ما إذا مات الزوجان وقد سمى لها مهرا ثبت ذلك بالبينة أو بتصادق الورثة فلورثتها أن يأخذوا ذلك من ميراث الزوج، هذا إذا علم أن الزوج مات أولا أو علم أنهما ماتا معا أو لم تعلم الأولية؛ لأن المهر كان معلوم الثبوت، فلما لم يتيقن بسقوط شيء منه بموت المرأة أولا لا يسقط، وأما إذا علم أنها ماتت أولا فيسقط منه نصيب الزوج؛ لأنه ورث دينا على نفسه".

(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:378، 379، ط: مصطفي البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں