بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے موقع پر مہر کے نام سے دی گئی رقم کی شرعی حیثیت اور اس کو استعمال کرنے کا حکم


سوال

زید نے اپنی بیٹی مسماة خدیجہ کاحق مہر(مثلاً) تین لاکھ روپے مقرر کرکے بکر کے بیٹے عمرو کودے دی( دینے سے مراد ابھی تک صرف منگنی ہوئی ہے جبکہ نکاح ہونا ابھی باقی ہے،یعنی نکاح اب تک نہیں ہوا ہے)، بکر نے حق مہر کے پیسے زید کے حوالے کر دیے، اب زید کے قبضے میں ہیں، زید غریب آدمی ہے، اور تھوڑی بہت زمین داری کرتاہے، اسے کھیت میں ٹریکٹر والے سے ہل چلانے کا کام کروانا ہے، اسی طرح کھیت کی دیگر ضروریات پوری کرنی ہیں، بیج وغیرہ بھی خریدنی ہے، مگر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس مشکل صورت ِحال میں وہ اپنی بیٹی کے پیسے( اس کی اجازت سے یا پھر بغیر اجازت کے جو بھی شرعاً درست ہو )اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے استعمال میں لانا چاہتا ہے، اور بعد میں جب اس کو قدرت علی الاداء ہو تو ضرور واپس بھی کرے گا کیا شرعاً زید کیلئے ایسا کرنا درست ہے ؟ اگر استعمال میں لایا تو کیا بعد میں اسے واپس کرنا ضروری ہوگا؟ کیا بیٹی سے اجازت لے کر اس کے پیسے استعمال کرنے کی گنجائش ہے؟ کیا بطور قرض ان پیسوں کو اپنی ضروریات میں استعمال کرنا جائز ہے؟

2.دین اسلام میں بہت سی چیزیں حرام ہیں، جیسےاکل میتہ و خنزیر بجمیع اجزائہ وغیرہ مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ محرمات شرعیہ میں سے بد ترین حرام کونسا ہے، جس کی حرمت سب سے زیادہ شدید ہو؟

جواب

1- واضح رہے کہ  منگنی کی شرعی حیثیت نکاح کی نہیں، بلکہ وعدۂ نکاح کی ہے، اور مہر تب واجب ہوتا ہے، جب نکاح کا انعقاد کیا جائے، قبل از نکاح مہر لازم نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً نکاح نہیں ہوا، صرف منگنی ہوئی ہے، تو عمرو  پر اپنی منگیتر (خدیجہ) کو مہر دینا لازم نہیں تھا، اس لیے زید کو جو انہوں نے مہر کے نام سے رقم دی ہےوہ مہر نہیں ہے، اور مہر نہ ہونے کی بنا پر وہ حسبِ سابق  دینے والے کی ملکیت میں ہے، زید کے پاس وہ رقم بطورِ امانت ہے، لہذا اگر  دینے والا  زید کو استعمال کرنے کی اجازت دے، تو زید کے لیے اس رقم کو استعمال میں لانا جائز ہوگا، بعد از استعمال یہ رقم زید کے ذمے مضمون ( قرض) ہو جائے گی، جس کی ادائیگی اس پر لازم ہوگی۔

واضح رہے کہ جب ادا کردہ  رقم مہر نہیں ہے، تو جب  خدیجہ کا عمرو سے نکاح کیا جائے گا، اس وقت مہر  مقرر کر کے دینا لازم ہوگا، خواہ اس وقت یہ رقم زید سے واپس لے کر دی جائے، یا دوبارہ نئے سرے سے ادا کی جائے۔

2-سائل کا سوال واضح نہیں ہے، بلکہ کئی احتمالات کا حامل ہے، محرماتِ شرعیہ اعتقادات، عبادات، معاملات ، معاشرات، اخلاقیات، ماکولات و مشروبات وغیرہ سب میں ہیں، سائل اس بات کی وضاحت کرے کہ ان کا  سوال کس باب سے متعلق  ہے؟ تاکہ اسی کے مطابق جواب دیا جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس ‌للوعد ‌فوعد، وإن كان للعقد فنكاح."

(کتاب النکاح، ج:3، ص:11، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يجب به المهر...فنقول: وبالله التوفيق المهر في النكاح الصحيح يجب بالعقد؛ لأنه إحداث الملك، والمهر يجب بمقابلة إحداث الملك؛ ولأنه عقد معاوضة وهو معاوضة البضع بالمهر فيقتضي وجوب العوض كالبيع.

ويجب عقيب العقد بلا فصل لما ذكرنا أنه يجب بإحداث الملك، والملك يحدث عقيب العقد بلا فصل؛ ولأن المعاوضة المطلقة تقتضي ثبوت الملك في العوضين في وقت واحد وقد ثبت الملك في أحد العوضين وهو البضع عقيب العقد فيثبت في العوض الآخر عقيبه تحقيقا للمعاوضة المطلقة."

(کتاب النکاح، فصل فی بیان ما یجب بہ المہر، ج:2، ص:288، ط:دار الکتب العلمیہ)

درر الحکام میں ہے:

"(المادة 762) : الأمانة هي الشيء الموجود عند الشخص الذي اتخذ أمينا، سواء أجعل أمانة بعقد الاستحفاظ كالوديعة أم كان أمانة ضمن عقد كالمأجور والمستعار،  أو صار أمانة في يد شخص بدون عقد ولا قصد،  كما لو ألقت الريح في دار أحد مال جاره."

(الکتاب السادس: الامانات، ج:2، ص:226، ط: دار الجیل)

درر الحكام ميں هے:

"في الأمانة قاعدتان:

القاعدة الأولى: الأمانة مضمونة على الأمين...يعني إذا هلكت الأمانة أو فقدت أو طرأ نقصان على قيمتها في يد الأمين بدون صنعه وتعديه وتقصيره في الحفظ لا يلزم الضمان على الأمين المذكور.

القاعدة الثانية:  إذا هلكت الأمانة بسبب صنع الأمين وفعله أو تقصيره في أمر المحافظة أو من جهة مخالفة صاحب المال المعتبر شرعا وغير الجائز مخالفته يكون الأمين ضامنا."

(الکتاب السادس: الامانات، الباب الاول: في بيان بعض الاحكام، ج:2، ص:236، ط: دار الجیل)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"الفرق بين ضمان العقد وضمان الإتلاف: ...من حيث التعويض: ففي ضمان العقد، لا يقوم التعويض على اعتبار المماثلة ويكون التعويض بناء على ما تراضيا عليه،أما الإتلافات المالية فإن التعويض فيها يقوم على اعتبار المماثلة، إذ المقصود فيها دفع الضرر، وإزالة المفسدة، والضرر محظور، فتعتبر فيه المماثلة."

(مصطلح:ضمان، اسباب الضمان، الفرق بین ضمان العقد و ضمان الاتلاف، ج:28، ص:227، ط:مطابع دار الصفوہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں