بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہانہ تنخواہ سے بچے ہوئے اور مضاربت پر دیے ہوئے پیسوں کی زکات کس طرح ادا ہو؟


سوال

ایک شخص ملازمت کرتا ہے اور تنخواہ سے گھریلو اخراجات پورے کرتا ہے ۔کچھ تنخواہ ہر ماہ بچ بھی جاتی ہے اور وہ جمع ہوتی رہتی ہے ۔تو کیا زکوٰۃ اس پر واجب ہے؟اگر ہے تو ان پیسوں کی زکوٰۃ کیسے ادا کی جائے کیوں کہ ہرماہ پیسے گھٹتے اور بڑھتے رہتے ہیں ؟سوال نمبر:2ان پیسوں میں سے کچھ پیسے مضاربت پر تجارت میں بھی دیے ہوئے ہیں تو ان پیسوں کی زکوٰۃ کیسے ادا کی جائے کیوں کہ ہر ماہ پیسے گھٹتے اور بڑھتے رہتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر ایک شخص کی ملکیت میں صرف وہی نقد رقم ہے جو اس کی تنخواہ سے ہر ماہ تھوڑی تھوڑی بچ جاتی ہے، اور  اس رقم کے سوا  سونا چاندی یا مالِ تجارت نہیں ہے؛ تو جس دن تنخواہ سے بچائی گئی رقم کی مقدار  ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہوجائے، اس دن سے یہ شخص صاحبِ نصاب شمار ہوگا، پھر ایک  سال  (ہجری اعتبار سے) گزرجانے پر اگر اتنی ہی رقم اس کی ملکیت میں باقی رہی یا اس سے بھی بڑھ گئی، تو اس شخص پر اپنی ملکیت میں موجود ضرورت سے زائد تمام نقد رقم کی زکات ادا کرنا لازم ہوگا؛ غرض ہر ماہ یا سال کے دوران ملکیت میں موجود رقم کے یا سونا چاندی و غیرہ کی قیمت کے گھٹنے بڑھنے کا اعتبار نہیں، بلکہ ایک مرتبہ صاحبِ نصاب ہو جانے کے بعد زکات واجب ہونے کے لیے  سال گزرنے پر بہ قدرِ نصاب مال ملکیت میں ہونے کا اعتبار ہے.

نیز مضاربت پر دیے ہوئے مال کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ اصل مالک کی ملکیت میں ہی ہوتا ہے، اسی لیے صاحبِ نصاب ہونے میں اس کو بھی شامل کیا جائے گا اور دیگر اموال کی زکات نکالتے وقت  بھی اس کو شمار کرتے ہوئے حساب کیا جائے گا، لہذا ملکیت میں موجود کل مالیت کے ساتھ ساتھ اسی کا حصہ بناتے ہوئے اگر مجموعہ  ساڑھے باون تولہ چاندی کی  قیمت کو پہنچ جائے، تو  اس کی بھی زکات ساتھ ہی  ادا کی جائے گی، سال کے درمیان کی کمی بیشی کا اعتبار نہیں ہے۔ 

تاہم مضاربت پر دی ہوئی رقم کی مزیدتفصیل یہ ہے کہ مضاربت کے طور پر دی جانے والی رقم  کی زکاۃ مالک کے ذمہ لازم ہے،اور اگر مضاربت میں نفع ہو تو مال کے مالک پر اپنے سرمایہ اور نفع دونوں کی ڈھائی فیصد  زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا اور مضارب پر نفع میں سے اپنے حصے کی ڈھائی فیصد  زکاۃ لازم ہوگی،لہذا مضارب نے اگر آپ کی رقم سے کوئی کام نہیں کیا تو آپ پر اپنے دیگر قابلِ اموال زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ اس رقم کی زکاۃ بھی لازم ہوگی، ورنہ مضارب سے سرمایہ اور نفع کی  تفصیل معلوم کرکے زکاۃ کا حساب کرلیجیے۔

واضح رہے کہ اگر ماہانہ خرچ  اور دیگر واجب الادا قرض سے زائد تھوڑی سی بھی نقدی بچت میں ہو، اور ساتھ میں سونا، چاندی یا  مالِ تجارت میں سے  کچھ نہ کچھ  ملکیت میں ہو،  تو زکات لازم ہونے کے لیے صرف جمع شدہ رقم  کی مقدار ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہونے کا اعتبار نہیں، بلکہ اگر ان سب چیزوں کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو ایسا شخص صاحبِ نصاب ہوگا اور اس پر سال گزرنے کےبعد  اس مالیت کی زکات، چالیسواں حصہ یا ڈھائی فیصد ادا کرنا لازم ہوگا۔

 في سنن أبي داود:

"عن ‌علي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم ببعض أول هذا الحديث قال: "فإذا كانت لك مائتا درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء يعني في الذهب حتى تكون لك عشرون دينارا، فإذا كانت لك عشرون دينارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار، فما زاد فبحساب ذلك.."‏.‏

(كتاب الزكاة، باب في زكاة السائمة، ج2، ص10، ط:المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)

و في بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع:

"فأما ‌إذا ‌كان ‌له ‌الصنفان ‌جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا.

وعند الشافعي لا يضم أحدهما إلى الآخر بل يعتبر كمال النصاب من كل واحد منهما على حدة."

(كتاب الزكاة، فصل: مقدار الواجب في زكاة الذهب،344/2، ط: المكتبة التوفيقية، مصر)

و في الفتاوى العالمگيرية:

"وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز... لكن يجب أن يكون التقويمبما هو ‌أنفع ‌للفقراء قدرا ورواجا."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث، الفصل الثاني في العروض، 179/1، ط: دار صادر، بيروت)

العنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:

"[الهداية:] قال (وكذا المضاربة) يعني إذا مر المضارب به على العاشر وكان أبو حنيفة يقول أولا يعشرها لقوة حق المضارب حتى لا يملك رب المال نهيه عن التصرف فيه بعد ما صار عروضا فنزل منزلة المالك ثم رجع إلى ما ذكرنا في الكتاب وهو قولهما؛ لأنه ليس بمالك ولا نائب عنه في أداء الزكاة..

[العناية:] وقوله (لأنه غير مأذون بأداء زكاته) يعني هو مأذون بالتجارة فقط، فلو أخذ أخذ غير زكاة وليس له أخذ شيء سوى الزكاة. وقوله (ولا نائب عنه) أي إنما هو نائب في التجارة لا غير، والنائب تقتصر ولايته على ما فوض إليه فكان بمنزلة المستبضع."

(كتاب الزكاة، باب الزكاة في المال، باب في من يمر علي العاشر، 231/2، ط: دار الفكر، لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101000

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں