بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہانہ تنخواہ/ کمیٹی میں جمع کردہ رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

 میری تنخواہ 28000/= روپے ہے،  ہم کرا ئے کے مکان میں رہتے ہیں،  میری اسی سال شادی ہوئی ہے،  میرے پاس کوئی پیسوں کی سیونگ نہیں ہے اور نہ ہو پاتی ہے، ہاں میں نے ایک کمیٹی ڈالی ہوئی ہے جو مہینے کے 3000 ہزار پر ہے،  اور کمیٹی شروع ہوئے سات مہینے ہوئےہیں ، گھر میں ضروریات کی سب چیزیں ہیں، لیکن کیش اماؤنٹ کچھ بھی نہیں ہے،  ہر مہینے کے آخری دنوں میں کسی سے ادھار لینے پڑتے ہیں یا ادھار نہ لیں تو بڑی مشکل سے  وقت گزرتا ہے،  میری بیوی کے پاس جہیز کا سونا ہے جو کہ تقریباً چار تولہ کے قریب ہے، ا ور ان کے پاس (بیوی) بھی کوئی کیش اماؤنٹ موجود نہیں ہے،  اور آمدنی کے کوئی ذرائع بھی نہیں ہیں،  معلوم یہ کرنا ہے  کہ کیا ہم پر زکات واجب ہوگی ؟ 

جواب

بصورتِ  مسئولہ  اگر تنخواہ کی رقم ماہانہ  خرچ ہوجاتی ہے، کچھ بچتا نہیں یا کچھ بچتا ہے،  لیکن نصاب کے برابر نہیں  اور یہ شخص کسی اور قابلِ زکات مال (سونا، چاندی، مالِ تجارت) کے اعتبار سے بھی صاحبِ نصاب نہیں تو مذکورہ شخص پر   زکاۃ واجب نہیں ہے۔

اسی طرح کمیٹی میں جتنی رقم (قسطیں) جمع کی گئی ہے اگر وہ رقم تنہایادوسرے اموال کے ساتھ مل کر زکات کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت ( جو آج بتاریخ 2021/ 4/ 25 کو  چاندی کی فی تولہ 1447 روپے کے حساب سے  پچھتر ہزار نو سو اڑسٹھ(75968) روپے بنتے ہیں) کے برابر ہو  یا اس سے زیادہ  تو اس رقم کی زکاۃ ادا کی جائے گی،،اور اگر آدمی پہلے سے صاحب نصاب نہیں اور کمیٹی میں جمع کردہ رقم بھی زکات کے نصاب کے برابر نہیں (جیسے کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے)  تو کمیٹی میں جمع کردہ  رقم پر زکات لازم نہیں ہے۔

باقی سائل کی بیوی کے پاس موجود سونے پر زکات کا حکم یہ ہے کہ اگر  مذکورہ خاتون کے پاس  اس کی ملکیتی  چار  تولہ سونے کے  ساتھ  کچھ نقد رقم (بنیادی ضرورت سے زائد) بھی ہے، اور ان دونوں چیزوں کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ بنتی ہے، تو مذکورہ خاتون پر سالانہ ڈھائی فیصد زکات اداکرنا لازم ہے، اور اگر ان کے پاس صرف چار تولہ سونا ہے، جب کہ نقدی رقم یا چاندی وغیرہ بالکل نہیں ہے تو مذکورہ خاتون پر زکات نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و لیس في دور السکنی و ثیاب البدن و أثاث المنازل و دوابّ الرکوب و عبید الخدمة و سلاح الاستعمال زکاة؛ لأنها مشغولة بحاجته  الأصلیة ولیست بنامیة".

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:262،کتاب الزکوۃ، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم."

(كتاب الزكوة، باب زكوة المال، ج:2، ص:305، ط:ايج ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں