بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہانہ تنخواہ پر زکوۃ کا حکم


سوال

تنخواہ پر زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ اگر ماہانہ تنخواہ میں سے رقم  محفوظ نہ ہوتی ہو تو کیا حکم ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر تنخواہ کی رقم ماہانہ خرچ ہوجاتی ہے، کچھ بچتا نہیں یا کچھ بچتا ہے،  لیکن نصاب کے برابر نہیں  اور یہ شخص کسی اور قابلِ زکاۃ مال (سونا، چاندی، مالِ تجارت) کے اعتبار سے بھی صاحبِ نصاب نہیں تو  زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ 

اور اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب تو نہیں ہے، لیکن تنخواہ کی رقم میں سے اخراجات (مثلاً رواں مہینے کے راشن اور یوٹیلیٹی بلز)کے بعد بچت ہوتی ہے، تو اگر  یہ رقم نصاب زکوۃ یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت (بتاریخ19/4/2021)  جو  پچھتر ہزار نو سو اٹھ سٹھ(75968) روپے بنتے ہیں، کے برابر ہو  یا اس سے زیادہ ہو اور چاند کے اعتبار سے سال پورا ہونے پر بھی مذکورہ  نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مالِ زکاۃ موجود ہو تو سال پورا ہونے کے بعد زکاۃ واجب ہوگی۔

اور  اگر  سائل  پہلے  سے صاحبِ نصاب ہیں  یعنی زکاۃ دیتے چلے آئے ہیں اس صورت میں  زکاۃ کی ادائیگی کے دن اگر تنخواہ کی رقم میں سے جتنی رقم   (بنیادی اخراجات سے زائد) محفوظ ہوگی اس رقم کو مجموعی مال کے ساتھ ملائیں گے اور زکاۃ ادا کریں گے۔اور تنخواہ کی رقم میں سے جس قدر رقم خرچ ہوگئی ہو اس پر زکاۃ نہیں ہے،  نیز زکاۃ کی ادائیگی کی تاریخ تک جو واجب الادا قرض یا بل ہو وہ اس میں سے منہا کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و لیس في دور السکنی و ثیاب البدن و أثاث المنازل و دوابّ الرکوب و عبید الخدمة و سلاح الاستعمال زکاة؛ لأنها مشغولة بحاجته  الأصلیة ولیست بنامیة".

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:262،کتاب الزکوۃ، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں