بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہ رمضان میں روزانہ ختم قرآن کی وجہ سے فرض اور تراویح کی نماز تنہا گھر میں پڑھنا


سوال

اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں روزانہ ختم قرآن کے لئے گھر میں فرض اور تراویح کی نماز اکیلا پڑھے ، اس خوف سے کہ مسجد میں آنے جانے میں زیادہ وقت لگ جاۓ گا اور قرآن ختم نہیں کر پاۓگا تواس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فرض نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت مؤکدہ واجب کے قریب  ہے ، بلا عذر مرد کا گھر میں نماز پڑھنے کی عادت بنا لینا گناہ ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا عذر  جماعت ترک کرنے والوں کے متعلق شدید وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں۔اسی طرح تراویح  کی نماز  بھی  مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت علی الکفایہ ہے ،اور تراویح کی نماز میں ایک مرتبہ قرآن مجید ختم کرنا سنت ہے اور یہ کسی بھی مسجد میں ادا کرنا آسانی کے ساتھ ممکن ہے ،اس لیے عشاء کی جماعت کے لیے مسجد  میں جائے ,چاہے آنے جانے میں وقت زیادہ لگے ،اس کا درجہ الگ ہے ،اور تراویح چاہے مسجد میں  پڑھے یا گھر میں جماعت کے ساتھ پڑھے ،اکیلے پڑھنے کے بجائے جماعت کے ساتھ پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے ،اس لیے جماعت کو ترجیح دے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج."

[كتاب الصلاة، الفصل الأول في الجماعة، ج:1، ص:82،ط: دار الكتب العلمية.]

فتاوی شامی  میں ہے:

"(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم.

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا. اهـ". 

 (2/ 45، باب الوتر والنوافل، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں