بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی نماز میں امام صاحب کا تین رکعت کے بجائے چار رکعت پڑھ لینا


سوال

مغرب کے نماز  میں اگر امام صاحب تین رکعت کے بجائے چار رکعت پڑھ لے تو کیا کرنا چاہیے؟ دوبارہ نماز پڑھنی  ہے یا نماز ادا ہوگئی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر امام صاحب نے مغرب کی نماز میں  تیسری رکعت میں قعدہ اخیرہ میں مقدار تشہد  بیٹھنے کے بعد سہواً کھڑے ہوکر چوتھی رکعت ادا کرلی  اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرلیا تو اس صورت میں مغرب کی نماز ادا ہوگئی اور ادا کی کی گئی چوتھی رکعت لغو شمار ہوگی۔

اور اگر امام نے سجدہ سہو نہیں کیا تو وقت کے اندر اندر اس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ اگر امام تیسری رکعت میں قعدہ اخیرہ میں بیٹھے ہی نہیں تھے تو مغرب کی نماز ہی نہیں ہوئی، اور اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 86):
"[تنبيه] لم يصرح بالمغرب كما صرح بالفجر والعصر مع أنه صرح به القهستاني، ومقتضاه أنه يضم إلى الرابعة خامسة، لكن في الحلية: لايضم إليها أخرى لنصهم على كراهة التنفل قبلها، وعلى كراهته بالوتر مطلقاً. اهـ.
قلت: ومقتضاه أنه إذا سجد للرابعة يسلم فوراً ولايقعد لها لئلايصير متنفلاً قبل المغرب. وقد يجاب بما يشير إليه الشارح بأن الكراهة مختصة بالتنفل المقصود، فلا ضرورة إلى قطع الصلاة بالسلام؛ وأما أنه لايضم إليها خامسةً، فظاهر لئلايكون تنفلاً بالوتر، فالأوجه عدم ذكر المغرب كما فعل الشارح. ثم رأيت في الإمداد قال: وسكت عن المغرب؛ لأنها صارت أربعاً فلايضم فيها".

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144202200679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں