بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی دوسری رکعت میں مکمل کھڑے ہونے کے بعد لقمہ دینے پر دوبارہ بیٹھ گیا تو نماز درست ہوگی یا نہیں؟


سوال

مغرب کی نماز میں امام دوسری رکعت میں پورا کھڑا ہوگیا، مقتدی نے لقمہ دیا تو پھر وہ التحیات پر بیٹھ گیا اور تیسری رکعت میں سجدہ سہو کر لیا، کیا یہ نماز ادا ہوگئی؟

جواب

واضح رہے کہ اگر امام دوسری رکعت میں قعدہ کرنا بھول جائے اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے تو ایسی صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ دیکھا جائے گا کہ امام کس قدر کھڑا ہوا تھا ، اگر امام کے گھٹنے سیدھے نہیں ہوئے تھے اور قعدے کے قریب قریب تھا تو اس کو چاہیے کہ یاد آنے پر فورًا قعدہ میں بیٹھ جائے اور اس صورت میں سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا، لیکن اگر امام اس قدر کھڑا ہوگیا تھا کہ قیام کے قریب قریب تھا اور اس کے گھٹنے سیدھے ہوگئے تھے تو اب اس کو دوبارہ قعدہ کی طرف لوٹ کر نہیں آنا ہے، بلکہ وہ تیسری رکعت ہی جاری رکھے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے، لیکن اگر امام قعدہ کی طرف لوٹ آئے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے تب بھی نماز درست ہوجائے گی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر امام صاحب   مغرب کی دوسری رکعت میں قعدہ کرنے کے بجائے مکمّل کھڑے ہوگئے تھے یا کھڑے ہونے کے قریب تھے،  تو ان کو مقتدیوں کے لقمہ دینے  کی وجہ سے واپس قعدہ کی طرف نہیں لوٹنا چاہیے تھا،  بلکہ قیام کو جاری رکھنا چاہیے تھا ، تاہم  بعد میں جب وہ قعدہ کی طرف لوٹ آئے اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرلیا تو اس عمل سے   نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

''(سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح  (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر."

 (کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السهو:ج:2، ص:83، ط: سعید) 

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"( وقعودها فرض ) أي قعود الصلاة التي على حدة فرض فيكون رفض الفرض لمكان فرض فيجوز ما لم يسجد للثالثة كذا في الشرح، وفيه أنه إنما يكون فرضا إذا قعده أما إذا تركه وبنى عليه شفعا كان واجبا حتى لا تكون الصلاة فاسدة والحاصل أن القعود غير الأخير محتمل لكونه فرضا إن فعله وواجبا إن تركه فلكل من القولين وجه فتأمل قوله : ( وهو إلى القيام أقرب الخ ) ظاهره أنه إن لم يستو قائما يجب عليه العود ثم يفصل في سجود السهو فإن كان إلى القيام أقرب سجد له وإن كان إلى القعود أقرب لا فحكم السجود متعلق بالقرب وعدمه وحكم العود متعلق بالاستواء وعدمه والذي في كلام غيره انهما متعلقان بالاستواء وعدمه أو بالقرب من القيام وعدمه وعلى الأول إن عاد قبل أن يستوي قائما ولو كان إلى القيام أقرب لا سهو عليه لقوله : إذا استتم أحدكم قائما فليصل وليسجد سجدتي السهو وإن لم يستتم قائما فليجلس ولا سهو عليه رواه الطحاوي وعليه فيكون هذا التفصيل الذي ذكره بعد إنما هو على ما اختاره صاحب الهداية والكنز أنه كان إلى القيام أقرب لا يعود وإلا عاد قوله : ( مع انحناء الظهر ) قيد به لأنه لو اعتدل فيه كان قائما فيمتنع العود بالأولى قوله : ( بانعدام استواء النصف الأسفل ) إنما كان إلى القعود أقرب لأنه لا يعده قائما في هذه الحالة لا حقيقة ولا عرفانا ولا شرعا لأنه لو قرأ وركع وسجد في هذه الحالة من غير عذر لا يجوز لأنه ليس بقائم كما في الحلبي قوله : ( في الأصح وعليه الأكثر ) وفي الولواجية المختار وجوب السجود لأنه بقدر ما اشتغل بالقيام صار مؤخرا واجبا وجب وصله بما قبله من الركن فصار تاركا للواجب فيجب سجود السهو وفي قاضيخان في رواية إذا قام على ركبتيه لينهض يقعد وعليه السهو ويستوي فيه القعدة الأولى والثانية وعليه الاعتماد اه من الشرح والسيد قلت الأحوط وجوب السجود لاختلاف التصحيح قوله : ( وأرجحهما عدم الفساد ) قد بالغ في المنتقى في رد القول بالفساد وجعله غلطا لأنه تأخير لا رفض."

(باب سجود السهو: ص:302، ط: الأمیریة)

فقط ولله أعلم


فتوی نمبر : 144402101008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں