میں آپ سےدورانِ سفرنمازوں کےبارےمیں سوال کرناچاہتاہوں،کیوں کہ میں اورمیرےبچےاکثرامریکہ اوردوسرےممالک کاسفرکرتےہیں اور دورانِ سفر جہاز میں نمازاداکرناممکن نہیں ہوتااس لیےمنزل پرپہنچ کرقضاءنمازیں اداکرنی ہوتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہےکہ کراچی سےامریکہ کاسفرآنےاورجانےدونوں صورتوں میں 18گھنٹےکاہوتاہے،لیکن جب کراچی سےامریکہ جاتےہیں تواسی دن پہنچ جاتےہیں اور بظاہرصرف ایک نمازقضاءہوتی ہے،لیکن جب امریکہ سےکراچی آتےہیں توڈیڑھ سےدودن لگ جاتےہیں،اس طرح سات سےآٹھ نمازیں قضاء ہوتی ہیں،حالاں کہ سفر کادورانیہ ایک ہی ہوتاہے،یہ بات گھڑی اورکیلنڈر کےمطابق ہے،لیکن اگرسورج کودیکھاجائےتوکبھی پورےسفرکےدوران سورج غروب ہی نہیں ہوتا،جب کہ دن اورتاریخ بدل جاتےہیں اورکبھی سورج دوبارہ طلوع ہوتاہے،لیکن دن اورتاریخ نہیں بدلتے،جومسافرکھڑکی کےپاس ہوتےہیں ان کوتوسورج کاپتہ چل جاتاہےلیکن دوسرےمسافروں کوسورج کےبارےمیں بالکل بھی پتہ نہیں چلتا،کیوں کہ دورانِ سفرکھڑکیاں بندرکھی جاتی ہیں اورجہاز میں اندھیراکردیاجاتاہے،اسی طرح اگرسنگاپور سےامریکہ جائیں تووقت الٹاگھوم جاتاہے،یعنی اگرسنگاپورسےاتوارکی شام کوچلیں تواسی اتوارکی صبح کوامریکہ پہنچ جاتےہیں اورواپسی میں جہازمیں بیٹھےبیٹھےہی چندگھنٹوں میں سورج طلوع ہوتاہےپھرغروب ہوتاہےپھرطلوع ہوتاہے نہ دن بدلتاہےنہ تاریخ بدلتی ہےمیں اس کاعینی شاہدہوں اورمیرےساتھ یہ ہوچکاہے۔
اب میراسوال یہ ہےکہ اس طرح کےسفرکےدوران نمازیں گھڑی اورکیلنڈرکےمطابق اداکی جائیں یاسورج کےطلوع اورغروب ہونےکےمطابق؟ جب کہ 99فیصد مسافروں کوطلوع اورغروب کاعلم نہیں ہوتا۔
میں اس مسئلہ کی وضاحت اپنےحالیہ سفرسےکرتاہوں کہ میں نےمنگل کی رات عشاء کی نمازکےبعدسفرشروع کیاتھا،پہلےدوبئی پہنچا دوبئی سےبدھ کی علی الصبح جہاز روانہ ہوا16گھنٹےکی پروازکےبعدبدھ کی دوپہرعصرکےوقت امریکہ پہنچا،اس دوران سورج کاکچھ پتہ نہیں کہ کب طلوع ہواکب غروب ہوااور کب دوبارہ طلوع ہوا؟ امریکہ پہنچ کر میں نےفجر،ظہراورعصرکی نمازیں اداکیں۔
واپسی پرمیں اتوارکوظہراورعصرکی نمازاداکرکےنکلا اورپیرکی رات کو8بچےدوبئی پہنچا،اس مرتبہ میں کھڑکی کےپاس بیٹھاتھا اوروقفہ وقفہ سےسورج کودیکھتا تھا ، اس پندرہ گھنٹےکےسفرکےدوران (جب کہ گھڑی کےمطابق 24گھنٹےکےدوران)سوراج غروب نہیں ہوا،سورج کی روشنی کم ہوتی جیساکہ غروب آفتاب سےپہلےہوتاہے،لیکن سورج غروب ہونےکےبجائےروشنی تیزہوگئی جیسےکہ دوپہرہو،اس کےبعدسورج دوبئی پہنچنےسےآدھاگھنٹہ پہلےغروب ہواتھا، اس کےبعدپیرکی رات 10بجےدوبئی سےروانہ ہوااورمنگل کی دوپہر1بجےکراچی پہنچا۔
اب سوال یہ ہےکہ مجھےصرف تین نمازیں اداکرنی تھیں(سورج کےحساب سے)یاپھرآٹھ نمازیں (گھڑی اورتاریخ کےمطابق)؟
آپ سےاس کی وضاحت درکاہے،کہ جہازکےسفرکےدوران نمازوں کاتعین کیسےکیاجائے؟
واضح رہےکہ مغرب کی طرف جانے والا شخص اگر چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں ان کے اوقات میں ادا کر سکتا ہو تو ہر نماز اس کا وقت داخل ہونے پر ادا کرے اور اگر اس کا دن اتنا طویل ہو گیا کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازوں کا وقت نہیں آتا تو عام ایام میں اوقات نماز کے فصل ( دونمازوں کےدرمیان وقفہ) کا اندازہ کر کے اس کے مطابق نمازیں پڑھے ، یہی حکم روزہ کا ہے کہ اگر طلوع فجر سے لے کرجو بیس گھنٹے کے اندر غروب ہو جائے تو غروب کے بعد افطار کرے، جو شخص جانب مشرق جا رہا ہے نماز کے اوقات اُس پر گزرتے رہیں گے ، ان اوقات میں نماز ادا کرے گا ۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل کےلیےگھڑی کےوقت کےحساب سےنمازاداکرنالازم ہے،اگرچہ سورج نظرآرہاہو۔
اورسائل کایہ کہناکہ سفرکےدوران نمازاداکرنا ممکن نہیں ہوتا ،اس لیےبعدمیں قضاءنمازاداکرتےہیں ،توحتی الامکان یہ کوشش کرنی چاہیےکہ نمازکواپنےوقت کےاندر پڑھے،کسی عذرکےبغیرنمازکواپنےمقررہ وقت کےعلاوہ میں پڑھناگناہ ہے،لہذاسائل کوجہازمیں بھی نمازکااہتمام لازم ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال الرملي في شرح المنهاج: ويجري ذلك فيما لو مكثت الشمس عند قوم مدة. اهـ. ح. قال في إمداد الفتاح قلت: وكذلك يقدر لجميع الآجال كالصوم والزكاة والحج والعدة وآجال البيع والسلم والإجارة، وينظر ابتداء اليوم فيقدر كل فصل من الفصول الأربعة بحسب ما يكون كل يوم من الزيادة والنقص كذا في كتب الأئمة الشافعية، ونحن نقول بمثله إذ أصل التقدير مقول به إجماعا في الصلوات."
(كتاب الصلاة، ج:1، ص:365، ط:دار الفكر)
احسن الفتاوی میں ہے:
’’عنوان:ہوائی سفر میں دن بہت بڑا یا بہت چھوٹا ہوجائے تو نماز روزہ کا حکم:
سوال:زید ہوائی جہاز کے ذریعہ مغرب کی سمت جارہا ہےسورج غروب نہیں ہورہا تو نماز کس طرح ادا کرے اور روزہ کس وقت افطار کرے؟یا اس کے برعکس مشرق کی طرف جارہاہےجس کا دن بالکل چھوٹا رہے گا اس کی نماز اور روزہ کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب:فتاوی شامی میں ہے:
"(وفاقد وقتهما) كبلغار، فإن فيها يطلع الفجر قبل غروب الشفق في أربعينية الشتاء(مكلف بهما فيقدر لهما)....ولا يساعده حديث الدجال؛ لأنه وإن وجب أكثر من ثلثمائة ظهر مثلا قبل الزوال ليس كمسألتنا؛ لأن المفقود فيه العلامة لا الزمان، وأما فيها فقد فقد الأمران.
(قوله: حديث الدجال) قال الرملي في شرح المنهاج: ويجري ذلك فيما لو مكثت الشمس عند قوم مدة. اهـ. ح. قال في إمداد الفتاح قلت: وكذلك يقدر لجميع الآجال كالصوم والزكاة والحج والعدة وآجال البيع والسلم والإجارة، وينظر ابتداء اليوم فيقدر كل فصل من الفصول الأربعة بحسب ما يكون كل يوم من الزيادة والنقص كذا في كتب الأئمة الشافعية، ونحن نقول بمثله إذ أصل التقدير مقول به إجماعا في الصلوات.....وفي هذا الحديث أن ليلة طلوعها من مغربها تطول بقدر ثلاث ليال، لكن ذلك لا يعرف إلا بعد مضيها لانبهامها على الناس، فحينئذ قياس ما مر أنه يلزم قضاء الخمس؛ لأن الزائد ليلتان فيقدران عن يوم وليلة وواجبهما الخمس.
(قوله: فقد فقد الأمران) لم أر من تعرض عندنا لحكم صومهم فيما إذا كان يطلع الفجر عندهم كما تغيب الشمس أو بعده بزمان لا يقدر فيه الصائم على أكل ما يقيم بنيته، ولا يمكن أن يقال بوجوب موالاة الصوم عليهم؛ لأنه يؤدي إلى الهلاك. فإن قلنا بوجوب الصوم يلزم القول بالتقدير، وهل يقدر ليلهم بأقرب البلاد إليهم كما قاله الشافعية هنا أيضا، أم يقدر لهم بما يسع الأكل والشرب، أم يجب عليهم القضاء فقط دون الأداء؟ كل محتمل، فليتأمل."
(کتاب الصلوۃ،366،367/1،ط:سعید)
’’ان عبارات سے ثابت ہوا کہ مغرب کی طرف جانے والا شخص اگر چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں ان اوقات میں ادا کرسکتا ہو تو ہر نماز اس کا وقت داخل ہونے پر ادا کرے اور اگر اس کا دن اتنا طویل ہوگیا کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازوں کا وقت نہیں آتا تو عام ایام میں اوقات نماز کے فصل کا اندازہ کرکے اس کے مطابق نمازیں پڑھے،یہی حکم روزہ کا ہے۔۔۔۔۔۔۔جو شخص جانبِ مشرق جا رہا ہے نماز کے اوقات اس پر گزرتے رہیں،ان اوقات میں نماز ادا کرے گا ۔‘‘
(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،71/4،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100381
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن