بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی دو رکعات چھوٹ گئیں تو پہلی رکعت پر قعدہ نہ کرنے سے سجدۂ سہو کیوں واجب نہیں ہوگا؟


سوال

اگر مسبوق سے نماز مغرب میں دو رکعت رہ جائیں اور وہ ان کے درمیان تشہد نہ پڑھے، تو اس پر سجدہ سہو لازم ہے یا نہیں؟ آپ کے فتوے کے مطابق سجدہ سہو  لازم ہے،  اور علامہ  شامی کے قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہے ۔

قَالَ فِي شَرْحِ المنیة :

"حتی لَو أدرك مَعَ الْإِمَامِ رکعة مِنْ الْمَغْرِبِ فإنه یقرأ فی الرکعتین الْفَاتِحَةَ وَالسُّورَةَ ویقعد فِي أولھما ؛ لأنھما ثانیته ، وَلَوْ لَمْ یقعد جَاز استحساناً لَا قیاساً وَلَم یلزمه سُجُود السھو وَلَو سھواً لکونھا أولی مِن وجه اھ۔"

(منحة الْخَالِق علی الْبَحْرِ الرَّائِقِ ، کتاب الصَّلَاة ، بَابِ الْحَدَثِ فی الصَّلَاة 1 : 664 ، ط : مکتبة زکریا دیوبند )

ومثلہ فی رَدّ الْمُحْتَارِ:

"قَوْلُه وَتَشَهَّد بَيْنَهُمَا قَالَ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ : وَلَوْ لَمْ يَقْعُدْ جَازَ اسْتِحْسَانًا لَا قِيَاسًا وَلَمْ يَلْزَمْهُ سُجُودُ السَّهْوِ لِكَوْن الرَّكْعَةِ أُوْلَى مِنْ وَجْهٍ آه۔"      

(رد المحتار ، ج : 2 ، ص : 418 ، ط : رشيديه)

آپ کا فتویٰ یہ ہے:

"مغرب کی جماعت میں دو رکعات رہ جائیں:

سوال: اگر کسی سے مغرب کی نماز میں(امام سے) دورکعت چھوٹ گئیں تو یہ شخص اپنی بقیہ رکعت کس طرح اداکرے ؟یعنی باقی دورکعتوں کے درمیان تشہد ضروری ہے یا نہیں ؟اگرتشہد میں نہیں بیٹھا تو سجدۂ سہو ہے یا نہیں؟

جواب: مغرب کی نماز کی جماعت میں آخری رکعت میں شامل ہونے کی صورت میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد بقیہ دو رکعت پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوکر، پہلی رکعت میں ثناء، تعوذ، تسمیہ کے بعد سورہ فاتحہ اور واجب قرأت کی جائے گی اور رکوع و سجدے کے بعد قعدے میں بیٹھ کر صرف التحیات پڑھی جائے گی، اس کے بعد دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور واجب قرأت کرنے کے بعد رکوع، سجدہ اور قعدہ کیا جائے گا، قعدہ میں التحیات، درود شریف اور دعا پڑھنے کےبعد سلام پھیر دیا جائے گا۔ خلاصہ یہ ہوا کہ دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد قرأت بھی کی جائے گی اور دونوں رکعتوں میں قعدہ بھی کیا جائے گا، کل تین قعدے ہوجائیں گے، ایک امام کے ساتھ آخری رکعت میں اور دو قعدے بعد کی دو رکعتوں میں۔ یاد رہے کہ مغرب کی نماز میں اگر دو رکعات رہ گئی ہوں تومسبوق کو اپنی نماز مکمل کرتے ہوئے ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنالازم ہے؛ کیوں کہ یہ مسبوق کی دوسری رکعت ہوگی، اگر قعدہ میں بیٹھنا بھول گیا تو آخر میں سجدۂ سہو کرنا لازم ہے، سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہوجائے گی۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144106200969 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن۔"

قولِ راجح کون سا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب کسی شخص کو امام کے ساتھ مغرب کی آخری رکعت ملی، تو اسے اپنی بقیہ دونوں رکعتوں کے درمیان بھی قعدہ کرنا چاہیے، یہی اولی اور راجح ہے، اس صورت میں کل تین قعدے ہو ں گے۔ لیکن اگر اس شخص نے امام کے ساتھ ملنے والی ایک رکعت کے آخر میں قعدہ کرنے کے بعد اپنی آخری (تیسری) رکعت میں قعدہ کیا،اور  امام کے بعد والی اپنی پہلی رکعت پر قعدہ نہیں کیا، تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر سجدۂ سہو واجب ہو، کیوں کہ دوسری رکعت کے اختتام پر تشہد میں بیٹھنا واجب ہے اور اس سے یہ واجب چھوٹ گیا ہے، لہذا اس صورت میں سجدۂ سہو کیے بغیر اس کی نماز درست نہیں ہونی چاہیے؛  اور یہی قیاس ہے،لیکن استحسان یہ ہے کہ اس شخص کی نماز سجدۂ سہو کے بغیر بھی درست ہو جائے گی، اور یہی راجح ہے۔  کیوں  کہ:

(1) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس صورت میں دوسری اور تیسری رکعت کے درمیان قعدہ نہ کرنے اور اس پر سجدۂ سہو  بھی  نہ کرنے کے باوجود نماز کا صحیح قرار دینا منقول ہے۔

 (2) سجدۂ سہو کے عدمِ لزوم کی ایک وجہ یہ  بھی بیان کی گئی  ہے کہ اس شخص کی امام کے بعد ادا کی جانے والی پہلی رکعت ایک اعتبار سے اس شخص کی چھوٹ جانے والی پہلی رکعت ہے (تو ایک رکعت پر قعدہ و تشہد لازم نہیں ہوتا)، اگرچہ دوسرے اعتبار سے(قیاس کے مطابق)  امام کے بعد پڑھی جانے  والی یہ رکعت دوسری رکعت ہے کہ پہلی اسے امام کے ساتھ ملی تھی اور اس کے بعد یہ دوسری ہے۔

تفصیل کے لیے ہماری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیجیے:

مغرب کی نماز میں امام کے ساتھ ایک رکعت ملے تو بقیہ رکعات کس طرح ادا کرے/ قعدہ اولی کرنا لازم ہے یا نہیں؟ 

لہٰذا جواب کا حاصل یہ ہے کہ صحیح اور راجح قول کے مطابق مسبوق اپنی دو رکعتوں کے درمیان تشہد پڑھے گا ، لیکن اگر اس نے تشہد نہ پڑھی تو بھی نماز صحیح ہو جائے گی ،صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  تشہد چھوڑنے کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہو گا ،البتہ اس کی نماز کراہت کے ساتھ درست ہو جائے گی  ،جیسا کہ تقریرات  الرافعی سے بالکل واضح ہے ۔

المعجم الكبير للطبرانی میں ہے:

"حدثنا علي بن عبد العزيز، ثنا حجاج بن المنهال، ثنا حماد بن سلمة، عن حماد، عن إبراهيم، أن جندبا، ومسروقا، " أدركا من صلاة المغرب ركعة، فلما سلم الإمام قاما يقضيان، فقام جندب في الركعة الثانية، وقعد مسروق فيهما جميعا، فقالا لابن مسعود، فقال: «كلاكما قد أحسن، وأصنع كما صنع مسروق."

(باب العين ، ج : 9 ، ص : من270 إلى274 ، ط : مكتبة ابن تيمية )

ترجمہ: ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ: "جندبؒ اور مسروقؒ دونوں  کو مغرب کی نماز میں سے ایک رکعت ملی، پھر جب امام نے سلام پھیرا تو دونوں نماز پوری کرنے کھڑے ہوگئے، تو جندب  دوسری رکعت میں کھڑے ہوگئے (قعدہ نہیں کیا)، اور مسروق نے دوسری اور تیسری دونوں رکعتوں میں قعدہ کیا؛ پھر انہوں  نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 'تم دونوں نے اچھا کیا، اور میں خود وہ عمل کرتا ہوں جیسا کہ مسروق نے کیا ہے'۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(والمسبوق من سبقه الإمام بها أو ببعضها وهو منفرد) حتى يثني ويتعوذ ويقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بها لكراهتها مفتاح السعادة (فيما يقضيه) أي بعد متابعته لإمامه، فلو قبلها فالأظهر الفساد، ويقضي أول صلاته في حق قراءة، وآخرها في حق تشهد؛ فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط، ولا يقعد قبلها.

(قوله ويقضي أول صلاته في حق قراءة إلخ) هذا قول محمد كما في مبسوط السرخسي، وعليه اقتصر في الخلاصة وشرح الطحاوي والإسبيجابي والفتح والدرر والبحر وغيرهم وذكر الخلاف كذلك في السراج لكن في صلاة الجلابي أن هذا قولهما وتمامه في شرح إسماعيل. وفي الفيض عن المستصفى: لو أدركه في ركعة الرباعي يقضي ركعتين بفاتحة وسورة ثم يتشهد ثم يأتي بالثالثة بفاتحة خاصة عند أبي حنيفة. وقالا: ركعة بفاتحة وسورة وتشهد ثم ركعتين أولاهما بفاتحة وسورة وثانيتهما بفاتحة خاصة اهـ.وظاهر كلامهم اعتماد قول محمد.

(قوله وتشهد بينهما) قال في شرح المنية: ولو لم يقعد جاز استحسانا لا قياسا، ولم يلزمه سجود السهو لكون الركعة أولى من وجه. اهـ."

(كتاب الصلاة ، باب الإمامة ، ج : 1 ، ص : 597 ، ط : سعيد)

تقريرات الرافعی میں ہے:

"(قوله ولو لم يقعد جاز) المراد بالجواز الصحة بلا إثم نظراً لكون الركعة التي صلاها أولى من وجه لا أصل الصحة إذ هي قياس أيضا إذ التشهد واجب، ولا الحل بلا كراهة اصلا إذ هي متحققة، ثم ظهر أن المراد أنه ترك القعود بينهما أصلا لا التشهد فقط فالقياس الفساد عندهما لأنه هو القعود الأخير."

(تقريرات الرافعي على حاشية ابن عابدین : 77/1 ، ط : سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"والأصل أنه إذا اقتدى في موضع الانفراد أو انفرد في موضع الاقتداء تفسد، ومن أحكامه أنه يقضي أول صلاته في حق القراءة وآخرها في حق التشهد حتى لو أدرك مع الإمام ركعة من المغرب فإنه يقرأ في الركعتين بالفاتحة والسورة، ولو ترك القراءة في أحدهما فسدت صلاته وعليه أن يقضي ركعة بتشهد؛ لأنها ثانيته، ولو ترك جازت استحسانا لا قياسا."

منحۃ الخالق علی البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وعليه أن يقضي ركعة بتشهد) يعني الركعة الأولى من الركعتين قال في شرح المنية حتى لو أدرك مع الإمام ركعة من المغرب فإنه يقرأ في الركعتين الفاتحة والسورة ويقعد في أولهما؛ لأنها ثانيته ولو لم يقعد جاز استحسانا لا قياسا ولم يلزمه سجود السهو ولو سهوا لكونها أولى من وجه اهـ.

 أقول: الظاهر أن المراد بالجواز استحسانا الحل لا الصحة وإلا لاقتضى عدمها في القياس ولا وجه له؛ لأنه ليس بفرض فلا ينافي تركه الصحة على أنك قد علمت أنه لا يلزمه سجود السهو بتركه فقول الرملي قوله لا قياسا؛ لأنه كأنه ترك القعود الأخير تأمل اهـ غير ظاهر فتدبر."

(كتاب الصلاة ، باب الحدث في الصلاة ، ج : 1 ، ص : 402 ، ط : دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں