بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا حکم


سوال

مغرب  کی نماز  سے پہلے دو یا چار رکعت نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ بچپن میں پڑھا کرتے تھے،  اس پہ کیا حکم ہے؟کچھ لوگ کہتے ہیں پڑھنے چاہییں اور کچھ نہیں،  آپ کی رہنمائی درکار ہے۔

جواب

واضح رہے کہ عام نمازوں میں  اذا ن اور اقامت کے درمیان اتنے وقفہ کا حکم ہے کہ کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے  والا اپنے پینے سے، اور قضائے حاجت کرنے والا قضائے حاجت کرکے فارغ ہوجائے، البتہ مغرب کی نماز میں چوں کہ تعجیل کا حکم ہے؛ اس لیے اس میں اتنا وقفہ کرنا درست نہیں ہے، لیکن بالکل وصل بھی (اذان سے بالکل متصل)  مکروہ ہے، اس لیے اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فصل ہونا ضروری ہے، جس کی تحدید   بقولِ امام صاحب  ایک سکتہ کے بقدر ہے، اور  اس دوران موذن بیٹھے نہیں ، اور ایک سکتہ کی مقدار ان کے ہاں ایک طویل آیت یا تین  مختصر آیات کے بقدر ہے، اور ایک روایت کے مطابق تین  خطوات (قدم)چلنے کے بقدر،اور صاحبین رحمہما اللہ  کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان جلسہ کے بقدر  وقفہ کرنا کافی ہے، یعنی ان کے بقول مؤذن اتنی مقدار بیٹھے گا کہ زمین  پر تمکن حاصل ہوجائے اور اس میں طوالت  نہ ہو۔  اور خود امام ابو حنیفہ کا عمل بھی یہی تھا کہ مغرب کی اذان اور نماز  کے درمیان وہ   بیٹھتے نہیں تھے۔

حاصل یہ ہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں صرف ایک طویل آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے،  اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں  (یعنی 2 منٹ ) یا اس سے   زیادہ  تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے،اس کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اور  بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے،         البتہ عذر کی وجہ سے تاخیر مکروہ نہیں ہے،جیساکہ مرض وسفر کی بنا پر  مغرب کو آخر وقت تک مؤخر کرنا اور عشاء کو اول وقت میں پڑھنا درست ہے۔

بصورتِ مسئولہ عام نمازوں کے برعکس مغرب کی نماز میں تعجیل کا حکم ہونے کی وجہ سے نماز اور اقامت کے درمیان وقفہ کا وقت کم ہے، جیسے کہ تمہید سے یہ بات واضح ہوئی، اس  لیے مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان زیادہ  وقفہ کرنا یعنی دو یا چار رکعت پڑھنا احناف کے ہاں مستحب نہیں ہے،البتہ چوں کہ ان دو رکعات کا مستقل معمول تاخیرِ مغرب کا سبب بنے گا  اسی وجہ سے فقہاء نے ان دو رکعتوں  کو مکروہ بھی قراردیا ہے،کیوں عام طور پر عوام روانی سے نماز اد انہیں کرسکتے، جس سے مغرب کی نماز میں تاخیر  شروع ہوجائے گی، اس لیے اس کا معمول بنانا درست نہیں ہے، اور اگر پڑھ لی تو  ناجائز بھی نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"و يفصل بين الأذان والإقامة مقدار ركعتين أو أربع يقرأ في كل ركعة نحوا من عشر آيات. كذا في الزاهدي.

و الوصل بين الأذان و الإقامة مكروه بالاتفاق، كذا في معراج الدراية. و الأولى للمؤذن في الصلاة التي قبلها تطوع مسنون أو مستحب أن يتطوع بين الأذان و الإقامة، هكذا في محيط السرخسي. فإن لم يصل يجلس بينهما و أما إذا كان في المغرب فالمستحب يفصل بينهما بسكتة يسكت قائمًا مقدار ما يتمكن من قراءة ثلاث آيات قصار، هكذا في النهاية. فقد اتفقوا على أن الفصل لا بد منه فيه أيضًا، كذا في العتابية.

و اختلفوا في مقدار الفصل فعند أبي حنيفة - رحمه الله - المستحب أن يفصل بينهما بسكتة يسكت قائما ساعة ثم يقيم، و مقدار السكتة عنده قدر ما يمكن فيه من قراءة ثلاث آيات قصار أو آية طويلة و عندهما يفصل بينهما بجلسة خفيفة مقدار الجلسة بين الخطبتين و ذكر الإمام الحلواني الخلاف في الأفضلية حتى إن عند أبي حنيفة - رحمه الله - إن جلس جاز و الأفضل أن لا يجلس وعندهما على العكس، كذا في النهاية.

و يستحب أن يدعو بين الأذان و الإقامة، كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الصلوۃ، الباب الثانی فی الاذان،  الفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتهما، ج:1، ص:57، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و قبل) صلاة (مغرب) لكراهة تأخيره إلا يسيرا.

(قوله: وقبل صلاة المغرب) عليه أكثر أهل العلم، منهم أصحابنا ومالك، وأحد الوجهين عن الشافعي، لما ثبت في الصحيحين وغيرهما مما يفيد «أنه صلى الله عليه وسلم كان يواظب على صلاة المغرب بأصحابه عقب الغروب» ، «ولقول ابن عمر - رضي الله عنهما - ما رأيت أحدا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليهما» رواه أبو داود وسكت عنه والمنذري في مختصره وإسناده حسن. وروى محمد عن أبي حنيفة عن حماد أنه سأل إبراهيم النخعي عن الصلاة قبل المغرب، قال: فنهى عنها، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم و أبا بكر وعمر لم يكونوا يصلونها. وقال القاضي أبو بكر بن العربي: اختلف الصحابة في ذلك ولم يفعله أحد بعدهم، فهذا يعارض ما روي من فعل الصحابة ومن أمره صلى الله عليه وسلم بصلاتهما؛ لأنه إذا اتفق الناس على ترك العمل بالحديث المرفوع لا يجوز العمل به؛ لأنه دليل ضعفه على ما عرف في موضعه ولو كان ذلك مشتهرا بين الصحابة لما خفي على ابن عمر، أو يحمل ذلك على أنه كان قبل الأمر بتعجيل المغرب، وتمامه في شرحي المنية وغيرهما.

(قوله: لكراهة تأخيره) الأولى تأخيرها أي الصلاة، وقوله إلا يسيرا أفاد أنه ما دون صلاة ركعتين بقدر جلسة، وقدمنا أن الزائد عليه مكروه تنزيها ما لم تشتبك النجوم، وأفاد في الفتح وأقره في الحلية والبحر أن صلاة ركعتين إذا تجوز فيها لا تزيد على اليسير فيباح فعلهما، وقد أطال في تحقيق ذلك في الفتح في باب الوتر والنوافل."

کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:376، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں