بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مغربی ممالک میں ملنے والے فروزن گوشت کا حکم


سوال

1۔ میں امریکہ میں ہوں،  مجھے ایک دوست نے کھانے کی دعوت دی، کھانے میں گوشت تھا ، یہاں معلوم نہیں جانور کیسے ذبح کیا جاتا ہے،  مشین سے ذبح کرتے ہیں،  مسلم نے ذبح کیا یا غیر مسلم نے،  تسمیہ پڑھی یا نہیں،  دوست سے اگر پوچھوں توبرا نہ مان جاۓ، اس صور ت حال میں کیا کروں؟ 

2۔ یہاں گوشت پیک شدہ ملتا ہے،  کیا وہ حلال ہے یا حر ام؟

جواب

واضح  رہے کہ کسی بھی قسم کے حلال جانور کے گوشت کی حلت و حرمت  کا مدار اس کے ذبح  پر ہوتا ہے، پس اگر ذبح کرنے والا مسلمان ہو، اور اس نے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہو، یا ذبح کرنے والا اہل کتاب  (عیسائی، یہودی) میں سے ہو، تو ایسے شخص کا ذبیحہ حلال ہوتا ہے، البتہ اگر بالیقین ذبح کرنے والے ( خواہ وہ مسلمان ہو یا اہل کتاب میں سے ہو)   کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ اس نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہے، تو ایسے شخص کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا۔

اسی طرح سے جانور کے  ذبحِ اختیاری میں یہ بھی ضروری ہے کہ گلے کی چاروں رگیں (کھانے کی نالی، سانس کی نالی اور خون کی نالیوں) یا ان میں سے اکثر کٹ جائیں، اور  ذبح کرنے والا خود جانور کو اپنے ہاتھ سے    تیز دھار آلہ سے ذبح کرے، (اگر آلہ کی تیزی کے بجائے اس کے دباؤ سے  دم گھٹنے کی وجہ سے جانور مرجائے تو وہ مردار ہوگا)۔

پس مروجہ مشینی ذبیحہ میں یہ سب شرائط نہیں پائی جاتیں، جس کی وجہ سے  مشین کے ذریعہ ذبح کرنا خلافِ شرع ہے، اور مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہوتا ہے۔

البتہ  اگر مشین کا کام صرف اس حد تک ہو کہ وہ جانور کو اس طور پر  قابو کرلے کی جس سے جانور کی موت واقع نہ ہو، پھر     مسلمان یا متدین اہلِ کتاب اللہ کا نام لے کر چھری پھیرنے دے    تو اس صورت میں ذبیحہ حلال ہوگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" والكتابي من يؤمن بنبي ويقر بكتاب رملي."

( كتاب الذبائح، ٦ / ٢٩٨، ط: دار الفكر )

لہذا  تازہ گوشت یا فروزن گوشت لینے سے قبل ذبح کرنے والے کے بارے میں معلومات حاصل کر لینی چاہئیں۔

1۔ اپنے دوست سے معلوم کرلیں کہ مذکورہ گوشت  کس نوعیت کا ہے، پس اگر وہ کہتا ہے کہ ذبح کرنے والا مسلمان ہے، یا اہل کتاب میں سے ہے اور ہاتھ سے ذبح شدہ حلال جانور کا گوشت ہے،  مشینی ذبیحہ نہیں ہے  تو مسلمان کی بات پر یقین کرلیا جائے۔

2۔ فروزن گوشت لینے سے قبل کمپنی کی تفصیلات  دیکھ لی جائیں، اس کے بعد لیا جائے۔

تاہم اگر یہود ونصاری اپنے مذہب کے اصول ، پیغمبر  اور کتبِ سماویہ کو مانتے ہیں ، دہریہ، سائنس اور نجوم پرست نہیں ہیں، اور جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں، ذبح کے وقت اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیتے تو ایسے یہود ونصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔

لیکن موجودہ  دور کے اکثر یہود ونصاریٰ ملحد، دہریہ، سائنس پرست اور نجوم پرست ہیں، صرف نام کے اہلِ کتاب ہیں، ان کو مذہب سے بالکل لگاؤ نہیں، بلکہ ان کے اقوال وافعال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب سے بے زار ہیں تو ایسے یہود ونصاریٰ کو اہلِ کتاب  کہنا  بھی صحیح نہیں اور ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں؛ اس لیے حلال اور غیر مشتبہ چیز کو چھوڑ کر مشتبہ چیز اختیار نہ کی جائے اور ان کے ذبیحہ سے مکمل احتراز کیا جائے۔

صحیح البخاری میں ہے:

" قال الزهري: لا بأس بذبيحة نصارى العرب، وإن سمعته يسمي لغير الله فلا تأكل، وإن لم تسمعه فقد أحله الله لك، وعلم كفرهم."

( كتاب الذبائح و الصيد، باب: ذبائح أهل الكتاب وشحومها، من أهل الحرب وغيرهم، ٧ / ٩٢، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

فتح القدير على الهداية میں ہے:

" (قوله ويجوز تزويج الكتابيات) والأولى أن لا يفعل ولا يأكل ذبيحتهم إلا للضرورة."

(كتاب النكاح، فصل في بيان المحرمات، ٣ / ٢٢٨، ط: دار الفكر، لبنان)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

" وفي المستصفى وقال أهل التأويل في قوله تعالى {وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم} [المائدة: ٥] أي ذبائحهم حل لكم؛ ولأن الطعام عام فيتناول الكل قالوا هذا يعني الحل إذا لم يعتقد المسيح إلها أما إذا اعتقده فلا انتهى.

وفي مبسوط شيخ الإسلام ويجب أن لا يأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله وأن عزيرا إله ولا يتزوجوا نساءهم وقيل عليه الفتوى لكن بالنظر إلى الدلائل ينبغي أن يجوز الأكل والتزوج والأولى أن لا يفعل ولا يأكل ذبيحتهم إلا للضرورة كما في الفتح فعلى هذا يلزم على الحكام في ديارنا أن يمنعوهم من الذبح؛ لأن النصارى في زماننا يصرحون بالأبنية قبحهم الله تعالى وعدم الضرورة متحقق والاحتياط واجب لأن في حل ذبيحتهم اختلاف العلماء كما بيناه فالأخذ بجانب الحرمة أولى عند عدم الضرورة."

( كتاب النكاح، باب المحرمات، نكاح الكتابية، ١ / ٣٢٨، ط: دار إحياء التراث العربي)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

(قوله ذميا أو حربيا) وكذا عربيا أو تغلبيا، لأن الشرط قيام الملة هداية، وكذا الصابئة لأنهم يقرون بعيسى - عليه السلام - قهستاني.

وفي البدائع: كتابهم الزبور ولعلهم فرق، وقدم الشارح في الجزية أن السامرة تدخل في اليهود لأنهم يدينون بشريعة موسى - عليه السلام -، ويدخل في النصارى الإفرنج والأرمن سائحاني. وفي الحامدية: وهل يشترط في اليهودي أن يكون إسرائيليا وفي النصراني أن لا يعتقد أن المسيح إله؟ مقتضى إطلاق الهداية وغيرها عدمه، وبه أفتى الجد في الإسرائيلي، وشرط في المستصفى لحل مناكحتهم عدم اعتقاد النصراني ذلك. وفي المبسوط: ويجب أن لا يأكلوا ذبائح أهل الكتاب إن اعتقدوا أن المسيح إله وأن عزيرا إله، ولا يتزوجوا بنسائهم، لكن في مبسوط شمس الأئمة: وتحل ذبيحة النصارى مطلقا سواء قال ثالث ثلاثة أو لا، ومقتضى الدلائل الجواز كما ذكره التمرتاشي في فتاواه، والأولى أن لا يأكل ذبيحتهم ولا يتزوج منهم إلا للضرورة كما حققه الكمال بن الهمام اهـ.

وفي المعراج أن اشتراط ما ذكر في النصارى مخالف لعامة الروايات (قوله إلا إذا سمع منه عند الذبح ذكر المسيح) فلو سمع منه ذكر الله تعالى لكنه عني به المسيح قالوا يؤكل إلا إذا نص فقال باسم الله الذي هو ثالث ثلاثة هندية، وأفاد أنه يؤكل إذا جاء به مذبوحا عناية، كما إذا ذبح بالحضور وذكر اسم الله تعالى وحده."

(كتاب الذبائح، ٦ / ٢٩٧، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں