بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

MAGENTO آن لائن کمپنی کا شرعی حکم


سوال

میں ایک آن لائن کمپنی میں کام کررہا ہوں، جس کا نام( magento) ہے،  اس میں کام کرنے کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ اس میں سب سے پہلے آپ کو مطلوبہ رقم ڈیپازٹ کرنی ہوگی،  کم از کم 29 ڈالر زیادہ کی کوئی حد نہیں ،  اب وہ رقم آپ کے میجینٹو کے اکاونٹ میں محفوظ ہو جاتی ہے جب بھی آپ چاہے نکلوا سکتے ہیں ،  اب پیسے رکھنے کے بعد روزانہ کا ورک ہوتا ہے،  ورک یہ ہوتا ہے کہ آپ کو روزانہ ایڈز  دیکھنے اور ان کی ایڈورٹائزمنٹ ہوتی ہے اور وہ ایڈز فحش یا غلط نہیں ہوتے اور روزانہ کی بنیاد پر ارننگ ہوتی ہے ، کام کے بدلے ارننگ ہوتی ہے، بنا کام کے ارننگ نہیں ہو گی،  اب ارننگ کتنی ہوتی ہے ؟ ارننگ شروع میں ایک ڈالر کے قریب ہوتی ہے اور بیلنس آہستہ آہستہ جتنا زیادہ ہو گا ارننگ بھی زیادہ ہو گی، مثلا اگر آپ کے پاس 50 ڈالرز ہیں تو روزانہ 2 ڈالرز  ارننگ ہو گی اور آہستہ آہستہ جب آپ کا بیلنس زیادہ ہوگا تو ارننگ بھی زیادہ ہوتی جائے گی،  70 ڈالر جب جمع ہو جائیں گے تو 3 ڈالرز  روزانہ، پھر دوسرے دن اس سے زیادہ،  یعنی کہ فیصد کے حساب سے ارننگ ہوتی ہے،  جب آپ کا بیلنس اتنا ہو گا تو ارننگ اتنی ہو گی،  بیلنس جتنا زیادہ ارننگ اتنی زیادہ ہوگی،  لیکن کام کرنے کے لیے اکاؤنٹ میں بیلنس ہونا ضروری ہے،  اگر بیلنس 0 ہے تو پھر آپ کام نہیں کر سکتے اور اس میں منافع ہی ہوتا ہے اگر کام کیا جائے تو،   نقصان صرف اس صورت میں ہوتا ہےکہ سائٹ بند ہو جائے یا اکاونٹ بند ہو جائے،  کیوں کہ اس میں صرف ہم ایڈز دیکھتے ہیں اور ایڈورٹائزمنٹ کرتے ہیں اور اس میں نقصان صرف سائٹ بند ہونے کی صورت میں یا تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہوسکتا ہے تو بتائیے ایک طرف ان کے پاس مال رکھ کر  پھر ساتھ کام کر کے جو ارننگ ہوتی ہے اور ارننگ بھی بیلنس پہ ڈیپینڈ کرتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

مذکورہ کمپنی میں رجسٹرڈ ہونااور اس سے پیسے کمانا ناجائز ہے،اس کی چند شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں:

1-    اس میں ایسے لوگ اشتہارات کو دیکھتے ہیں جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2-  اس میں کلک کرنے والا ایک ہی شخص کئی بار کلک کرتا ہے ،  جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھنے والے بہت سے لوگ ہیں، جس سے اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھتی ہے، حالاں کہ یہ بات بھی خلاف واقعہ اور دھوکا دہی ہے۔

3-  نیز ایڈ پر کلک ایسی چیز نہیں ہے جو منفعتِ مقصودہ ہو، اس لیے یہ اجارہ صحیح نہیں ہے۔

4-  اگر ان اشتہارات میں جان دار کی تصاویر یا خواتین کے تصاویر بھی ہوں تو یہ اس پر مستزاد قباحت ہے۔

5-  اس اجارہ کے معاملہ میں عمل  (کلک کی مجموعی تعداد) اور وقت (کلک کرنے کی مدت ) دونوں پر اجارہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد ہے۔

6-  انویسمنٹ کے طریقہ کار میں  مزید یہ خرابی بھی ہے کہ  یہ انویسمنٹ پلان میں یومیہ متعین نفع دیتی ہے، مثلاً انوسٹمنٹ $50= روزانہ کی آمدنی تقریباً $2، انوسٹمنٹ$70= روزانہ کی آمدنی تقریباً$3،نیز جتنی انویسٹمنٹ زیادہ ہوگی اتنا ہی نفع زیادہ ہوگی جیسا کہ سوال میں مذکورہیں،جب کہ شرعاً اس طرح کی انویسمنٹ ناجائز ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی سے معاملہ کرنا، اس میں رجسٹرڈ ہونا ناجائز اور حرام ہے،اس کے بجائے کسی حلال روزگار کی کوشش کرنی چاہیے، مزید یہ کہ اس سے محنت کرکے کمانے کی عادت ختم ہوجائے گی آدمی سست ہوجائے گا اور بیمار بھی۔

شعب الایمان میں ہے:

" عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب؟ قال:عمل ‌الرجل ‌بيده، وكل بيع مبرور."

(الثالث عشر من شعب الإيمان ، وهو باب التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء، ج:2، ص:84، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."

(كتاب الإجارة، ج:6، ص:4، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(أو) استأجر (خبازا ليخبز له كذا) كقفيز دقيق (اليوم بدرهم) فسدت عند الإمام لجمعه بين العمل والوقت ولا ترجيح لأحدهما فيفضي للمنازعة (قوله فيفضي للمنازعة) فيقول المؤجر المعقود عليه: العمل والوقت ذكر للتعجيل ويقول المستأجر: بل هو الوقت والعمل للبيان."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ‌‌مطلب في الاستئجار على المعاصي، ج:6، ص:58، ط:سعيد)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير."

(الف، إجارة،أنواع الإجارة بحسبِ مايؤجر،الفصل السابع ‌‌الإجارة على المعاصي والطاعات، ج:1، ص:291، ط:دارالسلاسل الكويت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310101136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں