بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

مفقودکوبطورمیراث ملنے والےمال کاحکم


سوال

راقم کے والد صاحب کا انتقال نومبر 1979میں ہوچکا ہے، اب والدہ صاحبہ کا انتقال جنوری 2019میں ہوگیا ہے،راقم کےوالدین کی پانچ سگی اولاد جس میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جن میں والدہ کے انتقال کے وقت سب حیات تھے ،سوائے راقم کے چھوٹے بھائی جو16اگست 1962کو پیدا ہوئے تھے،اور 1999میں پاکستان سے کینیڈاا چلے گئے تھے،جس کے بعد سےکچھ دنوں تک تو والدہ اوربھائیوں  اوربہنوں سے ان کا رابطہ رہا،لیکن پھر اچانک انہوں نے اس وقت کی اپنی کینیڈا کی رہائش ،دفتر ،نوکری،فون نمبروغیرہ سب کچھ تبدیل کرکے کینیڈا ہی میں کسی نامعلوم جگہ پر بغیر کوئی وجہ بتائے نقل مکانی کرلی اوراس کے بعد سے آج دسمبر 2024تک ،ان سے گھر انے کے کسی بھی فرد کا رابطہ نہیں ہوسکاہے،اس وقت تک وہ غیرشادی شدہ  تھے،راقم نے کینیڈا میں مقیم دیگر رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی اپنے لاپتہ چھوٹےبھائی کی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی،مگر کچھ پتا نہیں چلا اور یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ آیا وہ کینیڈا سے کسی اور ملک تو نہیں چلے گئے ہیں یا وہ زندہ بھی ہیں  کہ نہیں اور یہ کہ انہوں نے شادی بھی کی ہے یا نہیں  ،یا یہ کہ ان کی کوئی اولاد بھی ہے کہ نہیں ،ان کی اسی لاپتہ کیفیت کی وجہ سے انہیں والدہ کے 2019میں انتقال کی اطلاع بھی نہیں دی جاسکی  ؛کیوں کہ ان کی بابت کوئی معلومات ہی میسر نہیں تھیں ،اسی طرح راقم کے بڑے بھائی کا بھی 2021میں انتقال ہوگیا تھا ،جن کےپس ماندگان میں ایک بیوہ ،دوبیٹے اورایک بیٹی تاحال حیات ہیں ،راقم نے گھرانے کے سب سے بڑے فرد ہونے کی حیثیت  سے والدہ کی میراث کی تقسیم جولائی 2024میں محلے کی جامع مسجد کےمفتی صاحب سے رہنمائی حاصل کرکےکردی  اور راقم کے چھوٹے بھائی کاحصہ والدہ کی میراث سے اپنے پاس امانتاًمحفوظ رکھا ہواہے، جب کہ راقم کی خود کی عمر بھی 67سال ہوچکی ہے ۔

1۔میرا سوال یہ ہے کہ ایسے غیر یقینی حالات میں شریعت کا کیا حکم ہے کہ کتنا عرصہ لاپتہ شخص کا انتظار کرنا ہوتا ہے کہ یہ یقین کرلیا جا سکے کہ اب تک شاید اس کا انتقال ہوچکا ہوگا ،اور اب ان کی میراث کی آگے تقسیم کی جا سکتی ہے ؟

2۔راقم کے چھوٹے بھائی کے انتقال کے شرعی حکم لگنے کے بعد ،کیا اس کی میراث باقی ماندہ حیات محض ایک بھائی اور دوبہنوں میں تقسیم ہوگی؟یا اس کی میراث بڑے بھائی کے2021میں  انتقال  کے بعد  ان کی بیوہ ،دوبیٹوں  اور ایک بیٹی کا بھی اس میں حصہ رکھا جائے گا ؟یا پھر چوں کہ بڑے بھائی کے انتقال ،اوروالدہ کی میراث کی تقسیم کےبعد ہی چھوٹے بھائی کے انتقال کی بابت شرعی حکم معلوم چلا ہے تو کیا اس لیے اس کی میراث کی آگے ممکنہ تقسیم میں فوت شدہ بڑے بھائی یا ان کے حیات ورثاء کا اس تقسیم میں کوئی حصہ نہیں ہوگا ؟

3۔اگر شریعت کے حکم کےمطابق چھوٹے بھائی کے لاپتہ ہونے کے بعد ،جب اس کے انتقال کا حکم متصور ہوجاتاہے اور شرعی حکم کےمطابق چھوٹے بھائی کے ورثاء میں میراث تقسیم کردی جاتی ہیں اوربعد میں کسی طور پر اس کے زندہ ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو ایسے میں کیا شرعی حکم لگے گا ؟کیا راقم کو چھوٹے بھائی کی تقسیم شدہ رقم سب ورثاء سے  واپس لے کر چھوٹے بھائی کو لوٹانی پڑے گی ؟

نوٹ:والدہ کےترکہ میں ایک مکان ہے،اس کی تقسیم مطلوب ہے۔

جواب

1۔2۔صورتِ مسئولہ میں سائل کے  مفقودبھائی کو اپنی والدہ سے ملنے والے حصے کو موقوف رکھا جائے گا اور اس کےورثاء کے پاس بطور امانت رکھا جائے گا ،اگر آگیا تو اپنے حصے پر قابض ہوجائے گا،اگر نہیں آیا تو اس کی عمر جب ساٹھ سال ہوجائے اس وقت عدالت سے اس کی موت کا تصدیق نامہ  حاصل کرنے کے بعد اس کے حصہ کو ان  ورثاء کی طرف لوٹایا جائےگا جو والدہ کے انتقال کے وقت والدہ کےوارث بنے تھے چوں کہ سائل کے فوت شدہ بڑے بھائی اس وقت وارث بنے تھے، لہذا سائل کے مرحوم بڑے بھائی   کے ورثاء کو بھی اس میں حصے ملے گا ۔

3۔اگر  چھوٹے بھائی کے لاپتہ ہونے کے بعد  اس پر انتقال کا حکم لگاکراس کاموقوف حصہ تقسیم کردیاگیا اوربعد میں کسی طور پر اس کے زندہ ہونے کی اطلاع ملتی ہےتو ایسی صورت میں وہ  تقسیم شدہ رقم سب ورثاء سے  واپس لے کر چھوٹے بھائی کو واپس کرنا لازم ہے۔ 

امداد الفتاوی میں ہے: 

[مفقود کی میراث کے متعلق سوال کے جواب میں فرماتے ہیں : ] ’’حاصل اس عبارت کا یہ ہے کہ خود مفقود کا مال تو اس کے ورثہ میں اس وقت تقسیم ہوتا ہے جب قاضی حاکم مسلم اس کی موت کا حکم کر دےباقی اس حکم بالموت کے قبل اگر اس کا کوئی مورث مرجا وے تو اس کے ترکہ میں سے اس مفقود کا حصہ امانت رکھا جاتا ہے، اگر یہ زندہ آگیا تو اپنا حصہ لے لے گا، اور اگر حکم بالموت کی نوبت آگئی تو جن جن وارثوں کا حصہ کم کر کے اس مفقود کے لئے رکھا گیا تھا، وہ سب رکھا ہوا ان ورثہ کو مل جاوے گا ...‘‘

(ج: 4، ص: 362، ط: دارالاشاعت) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وميت في حق غيره فلا يرث من غيره)....قوله: على المذهب) وقيل يقدر بتسعين سنة بتقديم التاء من حين ولادته واختاره في الكنز، وهو الأرفق هداية وعليه الفتوى ذخيرة، وقيل بمائة، وقيل بمائة وعشرين، واختار المتأخرون ستين سنة واختار ابن الهمام سبعين لقوله - عليه الصلاة والسلام - «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا.... قال في البحر: والعجب كيف يختارون خلاف ظاهر المذهب مع أنه واجب الاتباع على مقلد أبي حنيفة. وأجاب في النهر بأن التفحص عن موت الأقران غير ممكن أو فيه حرج، فعن هذا اختاروا تقديره بالسن.... قلت: وقد يقال: لا مخالفة بل هو تفسير لظاهر الرواية وهو موت الأقران، لكن اختلفوا؛ فمنهم من اعتبر أطول ما يعيش إليه الأقران غالبا، ثم اختلفوا فيه هل هو تسعون أو مائة أو مائة وعشرون، ومنهم وهم المتأخرون اعتبروا الغالب من الأعمار، أي أكثر ما يعيش إليه الأقران غالبا لا أطوله فقدروه بستين؛ لأن من يعيش فوقها نادر والحكم للغالب، وقدره ابن الهمام بسبعين للحديث؛ لأنها نهاية هذا الغالب ويشير إلى هذا الجواب."

(كتاب المفقود، ج:4 ص:296 ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يرث المفقود أحدا مات في حال فقده، ومعنى قولنا " لا يرث المفقود أحدا " أن نصيب المفقود من الميراث لا يصير ملكا للمفقود، أما نصيب المفقود من الإرث فيتوقف، فإن ظهر حيا علم أنه كان مستحقا، وإن لم يظهر حيا حتى بلغ تسعين سنة فما وقف له يرد على ورثة صاحب المال يوم مات صاحب المال، كذا في الكافي. وإذا أوصى له توقف الموصى به إلى أن يحكم بموته فإذا حكم بموته يرد المال الموصى به إلى ورثة الموصي، كذا في التبيين."

(کتاب المفقود، ج:2، ص:300، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الدر:إنما يحكم بموته بقضاء لأنه أمر محتمل فما لم ينضم إليه القضاء لا يكون حجة.... وفي الرد:رأيت عبارة الواقعات عن القنية أن هذا أي ما روى عن أبي حنيفة من تفويض موته إلى رأي القاضي نص على أنه إنما يحكم بموته بقضاء."

(كتاب المفقود، (فرع)أبق بعد البيع قبل القبض، ج:4 ص:297 ط: سعيد)

فتح القدیرمیں ہے:

"قال المصنف:( والأرفق ) أي بالناس ( أن يقدر بتسعين ) وأرفق منه التقدير بستين. وعندي الأحسن سبعون لقوله صلى الله عليه وسلم:{ أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين } فكانت المنتهى غالباً، وقال بعضهم : يفوض إلى رأي القاضي ، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة ، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي."

(‌‌كتاب المفقود، ج:6 ص:149 ط: دار الفكر، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں