بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مفقود کی بیوی کا نکاح فسخ کر کے دوسری جگہ نکاح کرنا


سوال

ایک عورت کا شوہر دس سال سے لاپتہ ہے ،چار سال قبل پاکستان کے تھانہ میں رپورٹ جمع کرائی تھی ،مگر تھانہ والوں نے کہہ دیا کہ تلاش کے باوجود نہیں ملا ،اس بات کو چار سال ہو چکے ہیں،اب یہ ابو ظہبی میں ساڑھے تین سال سال سے رہ رہی ہے ،کیا وہ اب دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کو چاہیے کہ  کسی مسلم حاکم یا قاضی کے ہاں دعوی پیش کرے اور دو گواہوں کے ذریعہ  یہ ثابت کرے کہ  میرا نکاح فلاں شخص سے ہوا تھا  (نکاح کے عینی گواہ ضروری نہیں بلکہ عام شہرت  کی بنیاد پر بھی گواہی دی جا سکتی ہے )اس کے بعد گواہوں سے اس کا  لاپتہ ہونا ثابت کرے  اور   اس بات کو بھی ثابت کرے کہ اس کے نا ن نفقہ کا  بھی کوئی انتظام نہیں ہے ،اس کےبعد قاضی خود بھی اس غائب شخص کو تلاش کرے اور جب  اس کے         ملنے سے مایوسی ہو جائے تو عورت  کو مزید انتظار کا حکم کرے  جس کی مدت ایک مہینہ سے کم نہ ہو ،اگر اس مدت میں آجائے تو خیر ورنہ عدالت میں دوبارہ پیش ہو کر قاضی سے  اپنے نكا ح كو فسخ كروائے اور پھر طلاق كی عدت  تین ماہواری گزار کر مذکورہ عورت کو دوسری جگہ نکاح  کرنے کا اختیار ہوگا ۔

حیلۃ ناجزۃ میں ہے:

"وأما المفقود في بلاد الإسلام الي قوله فلها ان ترفع امرها الي الخليفةأو القاضي أو من يقوم مقامهما في عدمهما ليتفحصوا من حال زوجها بعد أن تثبت الزوجيةوغيبة الزوج والبقاء في العصمة الی الآن۔۔۔ الخ"

(الروایۃ الاولی ،ص : 127،ط:دار الاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"كفرقة، أو متاركة لأن عدة هؤلاء لتعرف براءة الرحم وهو بالحيض، ولم يكتف بحيضة احتياطا وفی الرد (قوله: لأن عدة هؤلاء إلخ) جواب سؤال حاصله لم كانت عدة هؤلاء بالحيض ولم يعتبروا فيهن عدة وفاة ط (قوله: لتعرف براءة الرحم) أي لأجل أن يعرف أن الرحم غير مشغول لا لقضاء حق النكاح إذ لا نكاح صحيح والحيض هو المعرف (قوله: ولم يكتف بحيضة) كالاستبراء لأن الفاسد ملحق بالصحيح احتياطا منح."

(کتاب الطلا ق،باب العدۃ،ج:3،ص:518،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں