بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مفعول کی توبہ کے بعد امامت کا حکم


سوال

ایک آدمی اغلام بازی میں  مفعول رہ چکا ہو، اور اس کے بارے میں ہر خاص وعام کو پتہ چل چکا ہو، اور اس کی بدکاری کی ویڈیو بھی لوگوں نے دیکھی ہو، پھر وہ توبہ کرکے کسی مدرسہ میں داخلہ لے لے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہی لوگوں کے پاس  نماز کے لیے مستقل طور پر یا ایک دو نمازوں کے لیے امام بننے کے لیے آجائے  جو اس کے ماضی میں مفعول رہنے سے باخبر ہوں تو کیا وہ لوگ اس آدمی کو ایک ، دو نمازوں کے لیے یا مستقل طور پر امام بناسکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص     نے اپنے اس گناہ پر نادم ہوکر ،  صدقِ دل کے ساتھ  توبہ کرلی ہے، اورآئندہ احکامِ شریعت کی پابندی کے ساتھ زندگی گزارنے کا عزم کرلیا ہے، تو پکی توبہ کرنے کے بعد وہ شخص فاسق نہیں رہا، اب اگر  وہ    قرآن مجید تجوید کے ساتھ پڑھ سکتا ہے اور نماز کے مسائل سے بھی  واقف ہے  تو اس کی امامت فی نفسہ   جائز ہے۔ 

تاہم   چوں کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے،امام مسلمانوں کا مقتدیٰ اور پیشوا ہوتا ہے، نماز جیسی اہم عبادت اس کے پیچھے ادا کی جاتی ہے،    یہی وجہ ہے کہ   اس منصب کے اہل شخص کا احترام سب  مسلمانوں پر لازم ہے،  امام کا  ماضی اگر کسی ایسے عمل سے   داغ دار ہو، جس سے لوگوں کو طبعی  کراہت ہوتی ہو  تو جو لوگ اس کے  اس عمل سے واقف ہوں اور  اور ان کو اس امام کے پیچھے نماز ادا کرنے میں  طبعی کراہت ہوتی ہو تو مناسب یہی ہے کہ مذکورہ شخص دوسرے علاقے میں امات کرے اور اس مسجد میں اس شخص کے بجائے کسی اورمتبع ِ سنت ، باکردار شخص کو امام بنایا جائے، تاکہ جماعت میں لوگوں کی کمی نہ ہو، اور امام کے احترام میں کسی قسم کی کمی نہ آئے،البتہ  اگر   مقتدیوں کو   اس امام  کی اقتداء میں نماز ادا کرنےمیں کراہت نہیں ہوتی ہو یا   کوئی اور اس سے بہتر شخص امامت کے لیے موجود نہ ہو تو اس کو امام بنانے میں  کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"و عن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "التائب من الذنب كمن لا ذنب له."

(2/ 32، کتاب الدعوات، باب الاستغفار و التوبة، ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی (الدر المختار مع رد المحتار) میں ہے:

" (وولد الزنا) هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة بحر بحثا.

وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة، وكذا تكره خلف أمرد وسفيه ومفلوج، وأبرص شاع برصه، وشارب الخمر وآكل الربا ونمام، ومراء ومتصنع.

(قوله: و ولد الزنا) إذ ليس له أب يربيه و يؤدبه و يعلمه فيغلب عليه الجهل بحر، أو لنفرة الناس عنه (قوله: هذا) أي ما ذكر من كراهة إمامة المذكورين (قوله: إن وجد غيرهم) أي من هو أحق بالإمامة منهم (قوله: بحر بحثًا) قد علمت أنه موافق للمنقول عن الاختيار وغيره ... (قوله ومفلوج وأبرص شاع برصه) وكذلك أعرج يقوم ببعض قدمه، فالاقتداء بغيره أولى تتارخانية، وكذا أجذم برجندي، ومجبوب وحاقن، ومن له يد واحدة فتاوى الصوفية عن التحفة. والظاهر أن العلة النفرة."

(1/ 562، کتاب الصلوۃ، باب الامامة،  ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144404100231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں