بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذہنی طور پر مفلوج شخص کے لیے روزے کے فدیہ کا حکم اور فدیہ ادا کرنے کا وقت


سوال

1:میرے والد صاحب ذہنی طور پر مفلوج ہیں،پاکی ناپاکی کی تمیز نہیں رکھتے،کیاروزے کا فدیہ دینا پڑے گا؟

2:فدیہ ساتھ ساتھ دیتے جائیں یا پھر رمضان المبارک کے ختم ہونے پردیا جائے؟

جواب

1:صورت ِ مسئولہ میں ذہنی مفلوج سے اگر  آپ کی مراد یہ ہے کہ ان کی  عقل سالم نہیں اور وہ نماز ،روزے  کی تمیز  بالکل ہی کھوبیٹھے ہیں ،تو اس صورت میں وه   شریعت کے احکام کے مکلف نہیں  ہیں،یعنی   ان پر نماز، روزہ اور دیگر عبادات  فرض نہیں  ہیں، اس لیے  اس حالت میں ان کے جتنے روزے چھوٹے ہیں ان کا فدیہ یا کفارہ ان کے  لازم  نہیں ہے۔

اوراگر  اُن کی عقل سالم ہے ،اوروہ نماز روزے کا مطلب  سمجھتے ہیں،لیکن اتنا بڑھاپا ہو گيا ہے كہ اب روزه ركھنے کی طاقت نہیں رہی،یا اتنے  بیمار   ہوگئے ہیں کہ اب صحت یاب ہونے کی امید  نہیں  ہے،تو وہ روزہ نہ رکھیں بلکہ ہر روزے کے بدلےایک صدقہ فطر کے برابر فدیہ  کی رقم ادا کردیں۔

2:فدیہ ادا کرنے میں اختیار ہے ،ایک ساتھ رمضان کے شروع  میں یا ختم ہونے پر   تمام روزوں کا فدیہ ادا کریں یاہر روزہ کا فدیہ ساتھ ساتھ  اداكرتے رہيں۔

کتاب الاختیار میں ہے :

"صوم رمضان فريضة على كل مسلم ‌عاقل ‌بالغ أداء وقضاء، وصوم النذر والكفارات واجب، وما سواه نفل، وصوم العيدين وأيام التشريق حرام."

(کتاب الصوم ،ج:1 ،ص:125 ،ط:العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"ولأن الفدية لا تجوز إلا عن صوم هو أصل بنفسه لا بدل عن غيره فجازت عن رمضان وقضائه والنذر حتى لو نذر صوم الأبد فضعف عن الصوم لاشتغاله بالمعيشة له أن يطعم ويفطر؛ لأنه استيقن أن لا يقدر على قضائه وإن لم يقدر على الإطعام لعسرته يستغفر الله تعالى."

(کتاب الصوم ، فصل فی عوارض الفطر فی رمضان جلد 2 ص: 308 ط: دارالکتاب الاسلامي)

فتاوی شامی میں ہے؛

"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرا وإلا فيستغفر الله ،وتحته في الشامية:(قوله ولو في أول الشهر) أي يخير بين دفعها في أوله وآخره كما في البحر."

(کتاب الصوم ،فصل في العوارض،ج:2 ص:427،ط:سعيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100520

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں