بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے استعمال شدہ کپڑوں کا حکم


سوال

 جب کوئی بندہ وفات پاجائے تواس کے استعمال شدہ کپڑوں کاکیاکیاجائے جب کہ اس کی اولاد میں نابالغ بچے بھی ہوں  جب کہ عام طورپرایسے کپڑے گھروں میں استعمال بھی نہیں کئے جاتے اوراولادکے بالغ ہونے تک رکھےبھی نہیں جاسکتے۔توایسی صورت میں ایسے کپڑے صدقہ کیے جاسکتے ہیں یانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ انتقال کے وقت میت کی ملکیت میں جو کچھ موجود ہوتاہے وہ سب اس کےترکہ میں شمار ہوتا ہے،جسے ورثاء کےدرمیان ان کے شرعی حصص کے بقدر تقسیم کیا جائے گا ،تقسیم سے پہلےکسی وارث کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مشترکہ ترکہ میں دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر کوئی تصرف کرے۔

لہٰذا صورتِ مسؤلہ میں اگر میت کے ورثاء میں نابالغ ورثاء بھی ہو ں تو میت کے استعمال شدہ کپڑوں کو صدقہ کرنا جائز نہیں ہے جب تك وہ بالغ  نہ ہوجائیں، البتہ اگر کوئی بالغ وارث  یہ کپڑے خريد كر اپنے حصے میں لے لے پھر وہ ان کپڑوں کو خود استعمال کرے یا  اپنی خوشی سے صدقہ کرنا چاہے تو صدقہ کرنا جائز ہے ،اور رقم بالغ و نابالغ ورثاء میں تقسیم کر دی جائے۔

شرح المجلہ میں ہے :

"كما تكون  اعيان المتوفي المتروكة   مشتركة بين الورثة علي حسب حصصهم."

(كتاب الشركة ، الفصل الثالث ج: 1 ص: 484 ط: مكتبة الرشيديه)

وفیہ ایضا :

"يجوز لأحد أصحاب الحصص التصرف مستقلا في الملك المشترك بإذن الآخر،لكن لايجوز له أن يتصرف تصرفا مضرا بالشريك ، والإذن نوعان: صريح و دلالة ، ففي الأول يتصرف الشريك بحصة شريكه كما أذنه سواء أضر أو لم يضر فله أن يرهن و يبيع أو يهب."

(الكتاب العاشر في أنواع الشركات ، الفصل الثاني ج: 1 ص: 476 ط: مكتبة الرشيديه)

فتاوی شامی میں ہے :

"يبدأ من تركة الميت الخاليةعن تعلق حق الغيربعينها

(قوله الخالية)لأن تركه الميت ماتركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال."

(كتاب الفرائض ج: 6 ص: 759 ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا".

(كتاب الصلح ، الباب الخامس عشر ج: 4 ص: 268 ط: دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411102638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں