بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کمیٹی کی ایک خاص صورت کا حکم


سوال

میت کے حوالے سے ایک کمیٹی بنتی ہے، مثلاً دس افراد نے مشورہ کیا کہ ہرماہ 500 روپے فی فرد جمع کرے گا، پھر یہ پیسے ایک  آدمی کے پاس جمع کرائے جاتے ہیں،  ان دس افراد میں سے کسی کے گھر میں اگر فوتگی ہوجاتی ہے، تو تین دن کا کھانا اس گھر میں ان پیسوں سے کھلاتے ہیں، یہ دس افراد ہر ماہ پیسے جمع کرنے کے پابند ہوتے ہیں، بعض  اوقات  کسی کے پاس نہ ہونے کی وجہ سے کوئی سختی نہیں ہوتی،جیسے ان کے پا س پیسے آجائیں وہ اپنے بقایاجات جمع کرلیتے ہیں، بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں کہ رقم زیادہ جمع ہونے کی وجہ سے وہ پیسے کاروبار میں لگادیتے ہیں، جیسے کاروبار میں منافع آنا شروع ہوجائے، تو جو لوگ ماہانہ 500 روپے جمع کراتے تھے وہ بند کردیتے ہیں، اگر مذکورہ لوگوں میں سے کسی کے گھر فوتگی ہوجاتی ہے، تو تمام خرچہ کاروبار کے منافع میں سے کیاجاتاہے۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ: مذکورہ بالا طریقہ پر کمیٹی بنانا شرعاً جائز ہے یانہیں؟ نیز کاروبار میں وہ پیسے لگا کر ان کے منافع سے میت  کے تمام اخراجات پورے کرنے کا کیاحکم؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی کے ہاں فوتگی ہوجائے تو میت کے اہل خانہ اور دور دراز سے آنے والے مہمانوں کےواسطے میت کے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کےلیے ایک دن اور ایک رات کھانے کا انتظام کرنا شرعاً مستحب اور تین روز تک جائز اور درست ہے؛  کیوں کہ میت کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہونے اور تجہیز و تکفین میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کا انتظام نہیں کرپاتے۔

اس کے برعکس  سائل نے  کمیٹی بنانے کی جو صورت ذکر کی ہے اس میں  اگر چہ  کمیٹی کے تمام شرکاء اپنی رضامندی اور خوشی سے مخصوص رقم جمع کراتے ہیں،  لیکن اس میں کئی شرعی قباحتیں موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1:جو لوگ کمیٹی کو چندہ کے طور پر رقم جمع کراتے ہیں تو ان لوگوں کی طرف سے دی گئی رقم کی حیثیت امانت یا قرض کی ہے، لہذا اِس صورت میں اگر چندہ دینے والے کا انتقال ہوجائے اور اس رقم میں میت کی رقم بھی شامل ہو تو وہ  رقم اس کا ترکہ بن جاتاہےجو چندہ دینے والے (میت)  کے ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی، جب کہ کمیٹی والے اس رقم کو بھی میت کے کھانے پر خرچ کرتے ہیں جو شرعاً جائز نہیں۔

2:اگر چندہ دینے والا صاحبِ نصاب ہو تو اِس رقم پر زکوۃ کی ادائیگی بھی لازم ہوگی حالانکہ کمیٹی میں کوئی شخص بھی اپنی جمع کرائی گئی رقم سے  زکوۃ ادا نہیں کرتا، جو کہ شرعاً گناہ کبیرہ ہے۔

3: نیز کمیٹی  میں اس شخص کی رقم بھی شامل ہوتی ہے جس کے گھر فوتگی ہوئی ہے، حالانکہ شریعت نے یہ ذمہ داری میت کے اہل خانہ پر نہیں، بلکہ پڑوس اور اہل محلہ پر ڈال دی ہے۔

اس لیے مذکورہ وجوہات کے بنیاد پر  سائل کے ذکرکردہ طریقہ پر کمیٹی بنانا  شرعاً جائز  نہیں، اور جب کمیٹی بنانا جائز نہیں تو رقم زیادہ ہونے کی صورت میں اس  کو  تجارت میں لگانا بھی جائز نہیں۔

تاہم اگر سائل کے ذکر کردہ کمیٹی کے طریقہ میں مذکورہ بالا قباحتوں سے اجتناب کیاجائے اور امداد باہمی کے تحت ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے  جس میں بلاتفریق ہر کسی کی امداد ہو تو کمیٹی بنانے کی گنجائش ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ میت کے پڑوسی/اہل محلہ میت کے اہل خانہ اور دور دراز سے آنے والے لوگوں کے کھانے کا انتظام  کریں۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عبد الله بن جعفر، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: "اصنعوا لأل جعفر طعاما، فإنه قد أتاهم أمر يشغلهم".

(كتاب الجنائز، باب صنعة الطعام لأهل الميت، ج:5، ص:52، رقم:3132، ط:دار الرسالة)

ترجمہ:

                حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے کہ  نبی کریمﷺ نے ارشاد  فرمایا تم جعفر کے گھروالوں  کے لئے کھاناتیارکرو، ان کوایسامعاملہ درپیش ہے کہ جس نے ان کو مشغول کر رکھا ہے 

فتاوى شامي ميں ہے:

"(قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت.

وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة".

(کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:2، ص:240، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولا بأس بأن يتخذ لأهل الميت طعام، كذا في التبيين، ولا يباح ‌اتخاذ ‌الضيافة عند ثلاثة أيام، كذا في التتارخانية".

(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز،مسائل التعزیة، ج:1، ص:167، ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں