بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مائر کا معنی


سوال

مائر کا اردو میں مطلب کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بچوں کا نام  رکھنے کے معاملہ میں اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ  انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ  کرام رضی اللہ عنہم یا اللہ کے نیک بندوں کے ناموں پر نام رکھا جائے یا  ایسا نام رکھا جائےجو  اچھے معنی والا ہو۔

’’اَلْمَیْر‘‘ (مَیْر) عربی زبان میں خوراک اور راشن کو کہا جاتا ہے، اسی مادے  (مَارَ یَمِیْرُ مَیْرًا،باب ضرب) سے اسمِ فاعل ’’مَائِرْ‘‘  کا معنیٰ ہے: اہلِ خانہ کے کھانے کا انتظام کرنے والا، اس معنی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ نام رکھنا درست ہے۔

اس کے علاوہ ’’المئر‘‘کا معنی دشمنی اور عداوت کا ہے، اور اس مادے سے ’’مائر‘‘ کا معنی ہے: دشمنی پیدا کرنے والا، اور’’المور‘‘ کا معنی ہے کترانا، اور اس  مادے سے ’’مائر‘‘ کا معنی ہے: کترانے والا، ان دونوں معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

شعب الایمان میں ہے:

 "عن أبي سعيد، وابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه، فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما، فإنما إثمه على أبيه."

(حقوق الأولاد والأہلین، ج: 6، ص: 401، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ترجمہ:’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی کا بچہ پیدا ہوتو اس کا اچھانام رکھے اور اچھی تربیت کرے،جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کردے ،اگر بچہ بالغ ہوجائے اور وہ آدمی اس کی شادی نہ کرے اور بچہ گناہ میں مبتلا ہوجائے تو اس کا گناہ باپ پر (بھی ) ہوگا ۔‘‘

تاج العروس میں ہے:

"(مير)

{الميرة، بالكسر: الطعام يمتاره الإنسان. وفي المحكم: الميرة: جلب الطعام، زاد في التهذيب: للبيع، وهم} يمتارون لأنفسهم، ويميرون غيرهم ميرا. وقد {مار عياله} يمير {ميرا، وقال الأصمعي: يقال: ماره يموره، إذا أتاه} بميرة، أي بطعام. {وأمارهم} وامتار لهم: جلب لهم. ويقال: {مارهم} يميرهم، إذا أعطاهم {الميرة. ويقال: ما عنده خير ولا} مير. {والميار: كشداد: جالب} الميرة، وفي اللسان: جالب {المير.} الميار، بالضم، كرمان: جلابه ليس بجمع {ميار، إنما هو جمع} مائر، ككفار جمع كافر."

(مير، ج: 14، ص: 162، ط: دار الهداية)

وفيه أيضا:

"‌‌(‌مور)

{مار الشيء} يمور {مورا: تردد في عرض،} كتمور، كذا في المحكم، وزاد الزمخشري: كالداغصة في الركبة.

والعرب تقول: ما أدري أغار أم مار حكاه ابن الأعرابي وفسره فقال: غار: أتى الغور، {ومار: أتى نجدا. وقيل في تفسيره: أي أتى غورا أم دار فرجع إلى نجد. وعلى هذا فيكون المور هو الدور. ومار الدم والدمع: سال وجرى، وفي حديث أبي هريرة رفعه: فأما المنفق فإذا أنفق} مارت عليه وسبغت حتى تبلغ قدميه. قال الأزهري: مارت، أي سالت وترددت عليه وذهبت وجاءت، يعني نفقته. وقال الزمخشري: والدم {يمور على وجه الأرض، إذا انصب فتردد عرضا.}."

(مور، ج: 14، ص: 151، ط: دار الهداية)

لسان العرب میں ہے:

"مأر: المئرة، بالهمزة: الذحل والعداوة، وجمعها مئر. ومئر عليه وامتأر: اعتقد عداوته. ومأر بينهم يمأر مأرا وماءر بينهم مماءرة ومئارا: أفسد بينهم وأغرى وعادى. وماءرته مماءرة، على فاعلته، وامتأر فلان على فلان أي احتقد عليه. ورجل مئر ومئر: مفسد بين الناس."

(فصل الميم، ج: 5، ص: 158، ط: دار صادر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں