بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے گھر والوں کافوتگی کے دن کھانے کاانتظام کرنے کاحکم


سوال

 جس گھر میں فوتگی ہو جائے تو کیا فوتگی والے دن میت کے ورثا کی طرف سے کھانا کھلانا کیسا ہے جائز ہے یا ناجائز ؟وضاحت فرما دیں کیونکہ ہمارے ہاں باقاعدہ شادی کی طرح اہتمام کیا جاتا ہے نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے تمام افراد کھا کر ہی جاتے ہیں اور اگر کھانے کا اہتمام نہ ہو تو لوگ لعن طعن کرتے ہیں، تو مدلل انداز میں آپ سے جواب  کا منتظر رہوں گا ۔

جواب

 جب  کسی  کے گھر میت  ہوجائے تو اس کے رشتہ داروں اور  پڑوسیوں کو  چاہیے کہ اہلِ  میت کے  لیے کھانا تیار کرکے ان کے گھر بھیجے ، یہ عمل مسنون ہے، البتہ  میت  کے گھر والے اس دن غم اور مصیبت میں ہوتے ہیں،  اس دن ان پر علاقہ والوں کو کھانا کھلانے کی ذمہ داری ڈالنا ظلم  اور   غلط رسم  ہے، جس کی اصلاح کرنا ضروری ہے، ہاں! میت والے گھر کے پڑوسیوں وغیرہ  کو چاہیے کہ وہ اس دن میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا اہتمام کریں، اور جو مسافر دور سے آئے ہوں، جن کے  لیے اس دن یا ایک دو دن تک واپس لوٹنا ممکن نہ ہو، اور کھانے کا متبادل انتظام نہ ہو، ان کے لیے اس کھانے میں سے کھانے کی اجازت ہوگی،باقی جنازے کے موقع پر عمومی دعوت کر نے اور نہ کرنے والوں پر لعن طعن کرنا شرعاًجائز نہیں ہے۔

مصنف عبدالرزاق میں ہے:

"عن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌اصنعوا ‌لآل ‌جعفر طعاما، فإنه قد جاءهم ما يشغلهم»"

(كتاب الجنائز، باب الطعام على الميت،ج:3،ص:550،الرقم:6665،ط:المجلس العلمى)

ترجمہ:" عبداللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ جب جعفر کی موت کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ؛ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تيار کرو؛ کیوں کہ انہیں وہ   چیز پہنچی  ہے،   جس  نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔"

صحیح البخاری میں ہے:

"عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم: أنها كانت ‌إذا ‌مات ‌الميت ‌من أهلها، فاجتمع لذلك النساء، ثم تفرقن إلا أهلها وخاصتها، أمرت ببرمة من تلبينة فطبخت، ثم صنع ثريد فصبت التلبينة عليها، ثم قالت: كلن منها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «التلبينة مجمة لفؤاد المريض، تذهب ببعض الحزن»."

(اكتاب الأطعمة،ج:7،ص:75،الرقم:5417،ط:السلطانيه)

ترجمہ: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ جب کسی گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی اور اس کی وجہ سے عورتیں جمع ہوتیں اور پھر وہ چلی جاتیں ،  صرف گھروالے اورخاص خاص عورتیں رہ جاتیں تو آپ  ہانڈی میں  "تلبینہ " پکانے کا حکم دیتیں ،  وہ پکایا جاتا، پھر ثرید بنایا جاتا اور تلبینہ اس پر ڈالا جاتا ،  پھر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ اسے کھاؤ؛ کیوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور اس کا غم دور کرتا ہے ۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة...وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره."

(كتاب الصلاة،باب الجنائز،ج:2،ص:240،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں