کیامیت کےگھر میں محلے کی کمیٹی کی طرف سے دیا گیا کھاناکھانا جائز ہے؟
واضح رہے کہ کہ مختلف محلوں میں قائم میت کمیٹیاں ،جن میں شمولیت کےلیے ہر ماہ متعینہ رقم جمع کرائی جاتی ہے ،اسی بنیاد پر کمیٹی میں شامل افراد کے یہاں فوتگی ہونے کی صورت میں کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے،چونکہ اس میں متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں اس لیے اس طرح کی کمیٹی کے قیام ہی سے احتراز کرنا اور ان کی طرف سے کھانے میں کھانا عموماًجمع کردہ رقم سے زائد ہوتا ہے، ایسا کھانا کھانا جائز نہ ہوگا ،البتہ محلے والے اگر غم خواری کے طور پر اپنی طرف سے میت کے گھر کھانے کا انتظام کریں ،تو اہل میت اور ان کے وہ عزیز واقارب جو دور دراز سے آئے ہوں ،یا اہل میت کی تسلی کےلیے ان کاقیام ضروری ہو، توان کےلیےمیت کے گھر کھاناکھانے کی گنجائش ہوگی۔
کفایت المفتی میں ہے:
’’(جواب ١٤٣) اہل میت کے گھر ضیافت کھانے کی جو رسم پڑ گئی ہے یہ یقیناً واجب الترک ہے ،صرف اہل میت کے وہ عزیز واقارب جو دور دور سے آئے ہوں اور ان کی امروز واپسی نہ ہو سکے یا اہل میت کی تسلی کے لئے ان کا قیام ضروری ہو وہ میت کے گھر کھانا کھالیں تو خیر ، باقی تمام تعزیت کرنے والوں کو اپنےاپنے گھروں کو واپس جانا چاہئیے ،نہ میت کے گھر قیام کریں نہ ضیافت کھائیں ۔‘‘
(کتاب الجنائز، ج:4، ص:123، ط:دارالاشاعت)
صحیح بخاری میں ہے:
"عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم:أنها كانت إذا مات الميت من أهلها، فاجتمع لذلك النساء، ثم تفرقن إلا أهلها وخاصتها، أمرت ببرمة من تلبينة فطبخت، ثم صنع ثريد فصبت التلبينة عليها، ثم قالت: كلن منها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (التلبينة مجمة لفؤاد المريض، تذهب ببعض الحزن)."
(كتاب الأطعمة، باب التلبينة، ج:5، ص:2067، الرقم:5101، ط:دار ابن كثير)
ترجمہ:’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ان کا کوئی رشتہ دار مر جاتا تو عور تیں جمع ہو تیں، پھر سب اپنے گھر چلی جاتیں، مگر خاص خاص اور قریب کی عورتیں رہ جاتیں اور تلبینہ بنانے کا حکم دیتیں، وہ پکایا جاتا، پھر ثرید بنا کر تلبینہ اس پر ڈال دیا جاتا، پھر فرماتیں کہ اسے کھاؤ، اس لیے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تلبینہ مریض کے دل کو تسکین دیتا ہے اور غم کودور کرتا ہے۔‘‘(کشف الباری)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الإمداد: وقال كثير من متأخري أئمتنا يكره الإجتماع عند صاحب البيت ويكره له الجلوس في بيته حتى يأتي إليه من يعزي، بل إذا فرغ ورجع الناس من الدفن فليتفرقوا ويشتغل الناس بأمورهم وصاحب البيت بأمره اهـ."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في الثواب على المصيبة، ج:2، ص:241، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102404
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن