کسی شخص نے مدرسے میں قرآن مجید زکوٰۃ کی مد میں دیے ،کیا مدرسے والے بوجہ ضرورت ان قرآن مجید کو دینی کتب میں مکتبہ والے سے تبدیل کرسکتے ہیں؟
صورت مسئولہ میں پہلی بات تو یہ واضح رہے کہ زکوة کی ادائیگی کے لیے تملیک ضروری ہے ،اس لیے زکوة کی رقم سے قرآنِ مجید کے نسخے خریدکر مدرسہ میں دینے سے زکوة ادا نہ ہوگی ،البتہ اگر قرآنِ پاک کے نسخے خرید کر مستحقِ زکوة سمجھدار بچوں کو قرآن دے کر مالک بنادیا جائے تو زکوة ادا ہوجائے گی، لیکن جن نابالغ بچوں کے والد مالدار ہیں ان کو زکوۃ کی مد میں قرآن مجید دینے سے زکوۃ ادا نہ ہوگی ، ہاں اگر مدرسے کو قرآن کریم کے نسخے زکوۃ کی مد میں دیے اور مدرسے نے مستحق طلبہ کو مالکانہ طورپر دے دئے تو زکوۃ اد ہوجائے گی۔
پھر اگر وہ مستحق طلبہ خود سے اپنے قرآن کریم کسی مکتبہ والے کو دے کر اس کی جگہ دیگر دینی کتب لینا چاہیں تو ان کے لیے یہ جائز ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے :
" مصرف الزکاۃ … هو فقیر … وفي سبیل اللّٰہ، وهو منقطع الغزاۃ، وقیل الحاج، وقیل طلبة العلم … ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحة … فلا یکفي فیها الإطعام إلا بطریق التملیک."
(کتاب الزکات ،باب المصرف ، 2/ 339 ، ط:سعید)
وفیه ایضا:
"(ولا) إلی (طفله) بخلاف ولدہ الکبیر وفي الرد:قوله:(ولا إلى طفله) أي الغني فيصرف إلى البالغ."
(کتاب الزکات ،باب المصرف ، 2/ 349 ، ط: سعید )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100028
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن