بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں پڑھنے والے بچوں کو دوران تلاوت سلام کرنے کا کہنا


سوال

 میں ایک مدرسہ میں چھوٹے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتا ہوں ، اب  وہاں کے مہتمم جب آتے ہیں توکہتے ہیں بچوں کو بطورِتعلیم کےلیے سلام کرو،  جب کہ میں کہتا ہوں قرآن مجید پڑھتے ہوئے  سلام جائز  نہیں،  وہ اس بات کوتو مانتے ہیں، لیکن پھر  کہتے ہیں کہ  یہ ان کو سکھا نے کےلیے ضروری ہے،  کیا یہ  درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ سلام  میں پہل کرنا سنت ہے اور سلام  کا جواب دینا واجب ہے، لیکن بعض  صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہوتا، ان میں قرآن کی تلاوت میں مشغول شخص بھی ہے، لہذا جو لوگ قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوں ان کو سلام نہیں کرنا چاہیے،  اگر کوئی ان کو  سلام کرلے تو ان کے لیے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے، البتہ  جواب دینا  جائز ہے، اسی طرح تلاوت کرنے والے   شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مقررہ مقدار تلاوت کرنے کے بعد سلام اور بات چیت کرے، تلاوت قطع کرکے درمیان میں سلام نہ کرے ، البتہ اگر وہ درمیان میں تلاوت روک کر سلام کرے تو  یہ  ناجائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مدرسہ کے مہتمم صاحب کا تلاوت کرنے والوں  بچوں کو تلاوت روک کر سلام کرنے کو نہیں  کہنا چاہیے ، بلکہ  ان کو تعلیم بھی یہی دینی چاہیے کہ تلاوت کے دوران تلاوت قطع کرکے سلام  نہ کریں ، بلکہ سلام کی ضرورت ہو تو   مقررہ مقدار تلاوت کرنے کے بعد  سلام کریں، تلاوت کے علاوہ عام حالت میں یا جب تلاوت موقوف ہو اس وقت سلام کرنے کی تربیت کرنی چاہیے۔

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے :

"وفي شرح الشرعة: صرح الفقهاء بعدم وجوب الرد في بعض المواضع: القاضي إذا سلم عليه الخصمان، والأستاذ الفقيه إذا سلم عليه تلميذه أو غيره أوان الدرس، وسلام السائل، والمشتغل بقراءة القرآن، والدعاء حال شغله، والجالسين في المسجد لتسبيح أو قراءة أو ذكر حال التذكير. اهـ."

(كتاب الصلاة، 1 / 618، ط: سعيد )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم، فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية. يكره السلام عند قراءة القرآن جهراً، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضاً، كذا في الغياثية. إن سلم في حالة التلاوة المختار أنه يجب الرد، كذا في الوجيز للكردري. وهو اختيار الصدر الشهيد، وهكذا اختيار الفقيه أبي الليث - رحمه الله تعالى - هكذا في المحيط."

(كتاب الكراهية، 5/ 325 ، ط: رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503101313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں