بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں زکوٰۃ اور غیر زکوٰۃ کی مد میں آنے والے راشن کو ضرورت کی وجہ سے بدلنا


سوال

ہمارے ادارے میں مخیّر حضرات  مختلف  مدّات میں راشن وغیرہ دیتے ہیں، بعض اوقات  کچھ ایسی اشیاء بھی آجاتی ہیں ، جو ہمارے ادارے میں استعمال نہیں ہوتیں یا کبھی کبھار کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں، جن کے خراب ہونے کا اندیشہ  ہوتا ہے، ادارے والے اپنی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اس کے متبادل  کوئی اور چیز دکان سے لے لیتے ہیں، کیا اس طرح کرنا صحیح ہے؟

زکوٰۃ کے راشن میں تو تملیک بھی  کردی جاتی ہے، زکوٰۃ میں لی  ہوئی چیز کو  تملیک کے بعد  ضرورت کی وجہ سے بدلنا  مدرسہ والوں کے لیے درست ہے؟ غیر زکوٰۃ والی مد میں آنے والے راشن کو بدلنے کا حکم بھی بتادیں۔

جواب

واضح رہے کہ مدارس کے نمائندے مدرسہ کے  طلبہ کے وکیل ہوتے  ہیں، لہذا  مدارس  کے نمائندے کو زکوٰۃ  حوالہ کرنے سے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی، البتہ ان نمائندوں پر لازم ہوگا کہ وہ زکوٰۃ کی رقم کو  طلبہ پر مالک بناکر خرچ کریں (وکیل پر لازم ہے کہ مؤکل کو چیز حوالہ کرے)، اگر مدارس کے نمائندے زکوٰۃ کی رقم  طلبہ پر مالک بناکر خرچ نہیں کریں گے تو امانت میں خیانت کرنے کی وجہ سے گناہ گار بھی ہوں گے اور ضامن بھی۔

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ  ادارے میں     زکوٰۃ اور غیر زکوٰۃ کی مد میں   راشن دینے والوں نے اگر  خود اس راشن کے  تبدیل کرنے  کی اجازت دی ہو تو  ادارے والوں کو طلبہ کی   ضروریات کے لیے  اس راشن کو تبدیل کرکے اس کی جگہ کوئی اور راشن وغیرہ لینا جائز ہوگا، اور اگر  دینے والوں کی طرف سے یہ صراحت نہ ہو تو  زکوٰۃ کی مد میں آنے والے راشن کو مستحق طلباء تک پہنچانا لازم ہوگا، اس کو  تبدیل کرنا جائز نہیں ہوگا، اور  نفلی صدقات اور عطیات کی مد میں آنے والي اشياء اگر ضرورت سے زائد ہوں یا ان کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو  اس کو تبدیل کرکے طلبہ  کی  ضرورت کا راشن لینے کی گنجائش ہوگی۔

     نیز یہ  ملحوظ رہے کہ کہ  کسی شدید ضرورت کے بغیر حیلۂ تملیک کرنا  مکروہ ہے، لہذا اگر مدرسہ کی ضروریات   عطیات اور نفلی صدقات سے پوری ہوجاتی ہیں تو حیلۂ تملیک کرنا  درست نہیں ہوگا، تاہم اگر مدرسہ کی ضروریات  عطیات اور نفلی صدقات سے  پوری نہیں   ہوتی ہے تو زکوٰۃ کی رقم کسی مستحق زکوٰۃ  طا لب علم کو دینے کے بعد اسے ترغیب دی جائے کہ وہ مدرسہ  میں عطیہ کردے پھر جب وہ خوشی سے دے دے  تو  اس سے مدرسہ کی تمام  ضروریات پوری کرنا درست ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

و في الرد : (قوله: ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اهـ أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اهـ لكن قد يقال: تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع. قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع اهـ تأمل، ثم قال في التتارخانية أو وجدت دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات؛ وكذلك المتولي إذا كان في يده أوقيات مختلفة وخلط غلاتها ضمن وكذلك السمسار إذا خلط الأثمان أو البياع إذا خلط الأمتعة يضمن. اهـ. قال في التجنيس: ولا عرف في حق السماسرة والبياعين بخلط ثمن الغلات والأمتعة اهـ ويتصل بهذا العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن.

قلت: ومقتضاه أنه لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حينئذ دلالة. والظاهر أنه لا بد من علم المالك بهذا العرف ليكون إذنا منه دلالة.

(قوله: إذا وكله الفقراء) لأنه كلما قبض شيئا ملكوه وصار خالطا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع."

(2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

وفيہ أيضا:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره،۔۔۔۔وقدمنا لأن الحيلة أن يتصدق على الفقير ثم يأمره بفعل هذه الأشياء وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم."

(2 / 344،   345باب المصرف، ط؛ سعید)

فتح القدير ميں  ہے:

"والحق الذي يقتضيه النظر إجراء صدقة الوقف مجرى النافلة، فإن ثبت في النافلة جواز الدفع يجب دفع الوقف وإلا فلا إذ لا شك في أن الواقف متبرع بتصدقه بالوقف إذ لا إيقاف واجب، وكأن منشأ الغلط وجوب دفعها على الناظر وبذلك لم تصر واجبة على المالك بل غاية الأمر أنه وجوب اتباع شرط الواقف على الناظر."

(2 / 273، کتاب الزکوٰۃ، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل دفع إلى رجل عشرة دراهم أو مائة من حنطة، وقال ادفع إلى فلان الفقير فدفع إلى غيره ، في الحاوي أنه يضمن، وقال ظهير الدين - رحمه الله تعالى -: لا يضمن؛ لأن المقصود ابتغاء مرضات الله تعالى وقد وجد في حق فقير، كذا في التتارخانية."

 (4 / 408، الباب الثاني عشر في الصدقة،  كتاب الهبة، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں