بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں طلبا کا کھانا، اساتذہ اور مہتمین کے لیے کھانا


سوال

 مدرسے میں جو کھانا  آتا ہے  طلبہ کے لیے،   مہتممین حضرات اس کھانے کو استعمال کرسکتے  ہیں؟

جواب

اگر مدرسہ  میں طلباء کے لیے آنے والے کھانے کے بارے میں دینے والے نے صراحت کی ہو کہ یہ صرف  طلبہ ہی کے لیے ہے تو کسی اور کے لیے اس کھانے کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اور اگر  کھانا دینے والے نے مدرسہ کی انتظامیہ کے حوالہ کردیا ہو  کہ وہ اس کو اپنی صواب دید پر کھلائیں تو اگر وہ کھانا  نفلی صدقات اور عطیات کا ہو اور مدرسہ کی انتظامیہ کی طرف سے  طلبہ کے علاوہ مدرسین اور دیگر  عملہ کو  بھی  کھانا جاری کرنے کا ضابطہ ہو   تو  اس میں سے  اساتذہ اور عملہ کا  کھانا بھی جائز ہوگا۔

اور اگر یہ  کھانا صدقاتِ واجبہ اور زکاۃ کی مد سے  ہے تو اولًا یہ مستحق طلبہ ہی کو دیا جائے، اگر وہ ان کی ضرورت سے زائد ہو یا اس کھانے کے علاوہ روزانہ کی ترتیب کے مطابق مدرسے میں کھانا تیار ہو جس کی وجہ سے یہ ضرورت سے زائد ہو تو ایسی صورت میں مستحقین کے  علاوہ  مدرسین اور عملہ کے لیے اس شرط پر لینے کی اجازت ہوگی کہ  وہ کھانے کے بقدر رقم مدرسہ کے زکاۃ  فنڈ میں جمع کرائیں اور وصول کرلیں، یا  مدرسے کے منتظمین یہ ضابطہ بنالیں کہ مدرسین اور عملہ معاوضہ دے کر  کھانا کھاسکتے ہیں تو پھر مدرسین اور مدرسہ کا عملہ مدرسہ کا کھانا قیمتاً خرید سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

اساتذہ اور غیر مستحق طلباء کا مدرسہ کے مطبخ سے کھانا کھانا


فتوی نمبر : 144210200159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں