بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی زمین کے ایک حصہ پر قبرستان بنانا


سوال

اہلِ  مدرسہ اور  ان کے اعزہ واقارب کے لیے مدرسہ کی وقف زمین کا ایک حصہ بطور قبرستان مختص کرنا کیسا ہے؟ اور اس کی کیا شرائط وتفصیل ہے؟

جواب

وقف جب درست اور صحیح ہوجائے  تو موقوفہ چیز  قیامت تک کے لیے  واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا  اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا، جیساکہ "فتح القدیر "میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولايباع ولايوهب ولايورث". (6 / 203)  کتاب الوقف، ط: دار الفکر)

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولايباع ولايوهب ولايورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية".(2 / 350، کتاب الوقف، ط: رشیدیه)

         اسی طرح  واقف نے وہ جگہ  جس   جہت اور مقصد کے لیے   وقف کی ہو  اس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے، مثلاً اگر کوئی جگہ    مدرسہ کے لیے وقف کی  تو وہاں  پر قبر ستان یا مسجد   وغیرہ بنانا جائز نہیں ہوگا، بلکہ اس جگہ  پر  مدرسہ بنانا   ضروری ہے، جیسا کہ"فتاوی شامی" میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به". (فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية".(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر پہلے زمین مدرسہ کے لیے وقف کردی ہو تو اس میں قبرستان بنانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر واقف نے وقف کرتے وقت کوئی جگہ قبرستان یا اہل مدراس کی تدفین  کے لیے مختص کردی ہو مدرسے کی زمین کے ساتھ اضافی جگہ قبرستان کے لیے خریدی جائے تو  اس جگہ قبرستان بنایا جاسکتا ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109203194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں