بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی رقم عاریتا لینا جائز نہیں


سوال

مدرسے  کی رقم  بطور  عاریۃً   لینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عاریۃً  مدرسہ کی رقم  لینا جائز نہیں ہے ، چونکہ چندہ  دہندگان  نے چندہ اس مقصد کے لیے نہیں دیا ہے  لہذا ضروری ہے کہ جس مقصد کے لیے چندہ دیاگیا ہے اسی مقصد کے تحت استعمال کیا جائے،البتہ  مدرسہ  کے  اساتذہ اور ملازمین جو مدرسہ کے مصالح اورخدمت میں مصروف ہوں انہیں پیشگی تنخواہ  کی  مد  میں بطورِ قرض رقم دی جاسکتی ہے  جو  اُن  کی تنخواہ سے منہا کی جائے، بشرطیکہ اساتذہ یا ملازمین کودی جانے والی رقم خطیر نہ ہو جس کی وصولیابی تنخواہ سے مشکل یا ناممکن ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و أمّا حكمها فوجوب الحفظ على المودع و صيرورة المال أمانة في يده و وجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني. الوديعة لاتودع و لاتعار و لاتؤاجر و لاترهن، و إن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج: 4، صفحہ: 337، ط: دار الفکر)

 الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"( فاذاتم ولزم لايملك ولايملك ولايعار ولايرهن )۔ وفى الرد : (قوله :لايملك ) أى لا يكون مملوكا لصاحبه ولايملك أى لايقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة الخارج عن ملكه ، ولايعار."

( کتاب الوقف ، مطلب مھم: فرق ابویوسف بین قولہ موقوفة۔۔الخ  ، 4/351، ط:سعید)

بحرالرائق میں ہے :

"أن القيم ليس له إقراض مال المسجد ، قال في جامع الفصولين ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع المتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز ."

(البحر الرائق،كتاب الوقف،5/259،ط:دارالکتب الاسلامی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144307102099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں