بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے بینک اکاؤنٹ سے ملنے والی سودی رقم مدرسہ کے مطبخ میں استعمال کرنے کاحکم


سوال

 مدرسہ کے بینک اکاؤنٹ سے ملنے والی سودی رقم مدرسہ کے مطبخ میں استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں ؟  جب کہ یہ رقم کسی غریب طالب علم سے حیلہ  بھی نہیں کیا جاتا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اوّلا  تو مدرسہ  کی رقم بینک کی سودی اکاؤنٹ میں جمع کرنا شرعاًجائز نہیں، اگر   حفاظت کی خاطر بینک میں رقم رکھنا ضروری ہو تو ایسی صورت میں بینک  کےلاکر  یا کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھنے کی  گنجائش موجود ہے، اگر  مدرسہ  کی رقم سودی اکاؤنٹ میں  غلط فہمی یا کسی وجہ سے رکھ دی تو پھراس اکاؤنٹ سے  ملنے والی  سودی رقم   وصول کرنا  کسی حال میں جائز نہیں ، مدرسہ صرف اپنی اصل رقم استعمال کرے،اوراگر سود ی رقم وصول کرلی ہو   تو  بلا نیت ثواب کسی مسکین کو دے دیں ،سودی رقم دینی مدرسہ کے طلباء  پر خرچ نہ کریں ، سود کھانےسے دل سیاہ پڑجاتاہے،سود کھانے والے حق وباطل، حلال و حرام  میں تمیز کرنے  کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں؛ لہذا طلباء  کی ضروریات پر سودی رقم ہر گز  استعمال  نہ کریں ،نیز مدرسہ کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ جتنا جلد ی ہوسکے، اس سودی اکاؤنٹ کو  کرنٹ اکاؤنٹ میں منتقل کروادے ،جس میں سود نہیں ملتا  ۔

 مسلم شریف میں ہے:

"عن جابر، قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والےپر، سود کھلانے والے پر،سودی معاملہ کے لکھنےوالے پراورسودی معاملہ میں گواہ بننےوالوں پراور ارشاد فرمایا کہ یہ سب(سود کے گناہ میں)برابر ہیں۔"

(باب لعن آکل الربا وموکله، 1219/3 ، ط: داراحیاءالتراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے:

‌"و الحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

( کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، 99/5، ط: سعید )

تفسیر مظہری میں ہے:

"واخرج ابن ابى حاتم بسند صحيح عنه قال ‌أكل ‌الربوا يبعث يوم القيامة مجنونا يخفق- والطبراني عن عوف بن مالك عنه صلى الله عليه وسلم نحوه- بلفظ مجنونا يتخبط- ويحتمل ان يقال في تأويل الاية انهم لا يقومون من مجلس يأكلون فيه مال الربوا الا كما يقوم المجنون بمعنى ان ‌أكل ‌الربوا يسود به قلبه بمجرد الاكل فلا يميز بعد ذلك بين الحق والباطل والحلال والحرام كما لا يميز المجنون بين الخير والشر فان لقمة الحرام يصير جزء من بدنه فيتغير به حقيقته."

(سورۃ البقرۃ، 395/1 ، ط: مكتبة الرشدية ، الباكستان)

بذل المجہود میں  ہے:

" قلنا: الآية والحديث يدلان على حرمة التصدق بالمال الحرام لأجل تحصيل الأجر والثواب، وقد أشير إليه في الحديث بقوله: "لا يقبل الله" فإذا تصدق بالمال الحرام يريد القبول والأجر يحرم عليه ذلك، وأما إذا كان عند رجل مال خبيث، فإما إن ملكه بعقد فاسد، أو حصل له بغير عقد، ولا يمكنه أن يرده إلى مالكه، ويريد أن يدفع مظلمته عن نفسه، فليس له حيلة إلا أن يدفعه إلى الفقراء، لأنه لو أنفق على نفسه فقد استحكم ما ارتكبه من الفعل الحرام، ودخل تحت قوله صلى الله عليه وسلم: "ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر يمد يديه إلى السماء يا رب يا رب، ومطعمه حرام، وملبسه حرام" الحديث، أو أضاعه واستهلكه، فد خل تحت قوله صلى الله عليه وسلم: "نهى عن إضاعة المال"، فيلزم عليه أن يدفعه إلى الفقراء، ولكن لا يريد بذلك الأجر والثواب، ولكن يريد دفع المعصية عن نفسه، ويدل عليه مسائل اللقطة."

(کتاب الطھارۃ،باب فرض الوضوء،359/1، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فتاوی شامی میں ہے :

"قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك ‌مالا ‌خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره؛ لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله شرنبلالية."

( کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا، 658/1، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101631

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں