بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے لیے جمع کردہ فنڈ کو دوسرے رفاہی کاموں میں خرچ کرنا


سوال

ہمارے گاؤں کی ایک تنظیم تقریبًاچالیس سال سے" UAE"میں قائم ہے ،اس تنظیم کے پہلے دو کام چل رہے تھے :1۔مردہ فنڈ ،2۔ڈرائیوری فنڈ، "مردہ فنڈ" کاکام یہ ہے کہ امارات میں کوئی فوت ہوجائے تواُس کےلیے اس تنظیم کےتحت رقم جمع کی جاتی ہےاوروہ اُس کے اہلِ خانہ کودی جاتی ہے۔"ڈرائیوری فنڈ" کاکام یہ ہے کہ اگرامارات میں ہمارے کسی گاؤں والے کاایکسیڈنٹ ہوجائے تو اُس کاجرمانہ یہ تنظیم پوراکرتی ہے۔

پھرتقریبًا27سال پہلے ہمارے گاؤں میں ایک مدرسہ قائم کیاگیاتو اس مدرسے کواس تنظیم کے تحت شامل کیاگیا،اب اس تنظیم کے تین کام ہوگئے:1۔مردہ فنڈ ،2۔ڈرائیوری فنڈ،3۔فلاح مدرسہ فنڈ۔جب 2005 میں زلزلہ آیاتوگاؤں کے مشران نے اس "فلاح مدرسہ فنڈ"سے زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے لیےکچھ فنڈ بھیجا،اورپھرعلاقے کے علماء نے یہ کہہ کرمنع کردیاکہ یہ مدرسہ کافنڈ ہے ،اس کودوسرے مصارف میں خرچ کرناجائز نہیں،تومشران نے اس کے بعد"فلاح مدرسہ  فنڈ" کانام تبدیل کرکے  "فلاح توغ سرائےUAE"رکھ دیا،یہ نام کی تبدیلی تھی ،باقی تنظیم کایہ شعبہ"فلاح توغ سرائےUAE"بھی مدرسہ کے لیے لوگوں سے پیسے جمع کرتاتھا،پھر اگرکچھ رقم بچ جاتی تووہ گاؤں کے دوسرے رفاہی کاموں میں خرچ کی جاتی،پھرگاؤں کے مشران نے گاؤں میں زیرِتعمیر جنازہ گاہ کے لیے اسی فنڈ سے رقم دی۔

پھر ہمارے گاؤں میں مزیددوتنظیمیں اور بنیں:1۔نیک نیت،2۔فلاح توغ سرائے،اب یہ دوتنظیمیں جب گاؤں میں کوئی رفاہی کام کرتی ہیں تویہ ہم گاؤں والوں سےاُس کےلیےرقم کامطالبہ کرتی ہیں۔

مندرجہ بالاتفصیل کے بعد مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1۔زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے لیے "فلاح مدرسہ فنڈ" سے جورقم بھیجی گئی تھی اُس کاکیاحکم ہے؟

2۔تنظیم کانام تبدیل کرنےکے بعد تنظیم مدرسہ کےلیے جوفنڈ جمع کرتی رہی اُس کوجنازہ گاہ کی تعمیر میں خرچ کرناجائزتھایاناجائز؟

3۔ گاؤں  کی دوسرے تنظیموں کو"فلاح توغ سرائے UAE" تنظیم(جو لوگوں سےمدرسہ کے لیے فنڈ جمع کرتی ہے) سے فنڈدینا جائز ہے یانہیں؟

4۔اکثر لوگوں سے مدرسے کے نام پر فنڈجمع کیاجاتاہے ،اور دوسرے کاموں میں اُن کی دلچسپی نہیں ہوتی ،تواُن سے بغیر اُن کی دلچسپی کے فنڈجمع کرناکیساہے؟

5۔اگرمندرجہ بالاصورتیں ناجائز ہیں توپھر جواز کی کیاصورت ہے کہ تنظیم بھی چلے اور گاؤں کے رفاہی کام بھی ہوسکیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ اگر چندہ جمع کرتے وقت لوگوں سے کسی خاص مصرف کے نام پر چندہ کیاجائےتوپھر اس جمع شدہ رقم کواسی مصرف میں خرچ کرناضروری ہوتاہے،چندہ دینے والوں کی اجازت کے بغیر اُسے کسی اور مصرف میں خرچ کرناشرعًاجائز نہیں ہوتا،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں  مدرسے کے نام پر لوگوں سے چندہ جمع کرکےجو فنڈجمع کیاجاتاتھاتواُس کوکسی اور مصرف میں خرچ کرناجائز نہیں تھا،اُس کومدرسے ہی میں لگانا ضروری تھا،لہٰذازلزلہ سے متاثرہ لوگوں کے لیے "فلاح مدرسہ فنڈ"سے رقم بھیجناجائز نہیں تھا،جن لوگوں نے یہ رقم بھیجی ہے  اُن پر لازم ہے کہ اُتنی رقم مدرسے کے فنڈ میں جمع کرادیں۔

2۔تنظیم کانام تبدیل کرنے کےبعد بھی اگر تنظیم مدرسہ کےنام پر چندہ جمع کرتی رہی تو اس رقم کوجنازہ گاہ کی تعمیر میں خرچ کرناجائز نہیں تھا،لیکن اگرنام تبدیل کرنےکے بعد عوام سےتنظیم کے مختلف کاموں کے لیے چندہ لیاجاتا رہا تو پھر اس رقم سے جنازہ گاہ کی تعمیر درست تھی۔

3۔"فلاح  توغ سرائے UAE" تنظیم اگر لوگوں سے صرف مدرسے کے نام پر فنڈ جمع کرتی ہے،تو ایسی صورت میں گاؤں کی  دوسری رفاہی تنظیموں کواس سے فنڈ دیناجائز نہیں،اس تنظیم کے جمع کردہ فنڈکومدرسے میں ہی لگاناضروری ہے۔

4۔لوگوں سے مدرسے کے نام پرجتنافنڈجمع کیاجاتاہے وہ مدرسے کے علاوہ گاؤں کے کسی  اوررفاہی کام میں لگاناجائز نہیں،اوراگرلوگ  دوسرے کاموں کے لیے خوش دلی سےچندہ نہیں دیتے تواُن سے بغیراُن کی رضامندی کےزبردستی  پیسے لیناجائز نہیں۔

5۔جائز صورت یہ ہے کہ جس کام کے لیے پیسوں کی ضرورت ہو،لوگوں کوصاف بتادیں کہ گاؤں کے فلاں رفاہی کام میں پیسوں کی ضرورت ہے ،سب اس میں تعاون کریں،پھر جو لوگ اپنی خوشی سے تعاون کریں اُسے قبول کرلیاجائے،لیکن لوگوں سے زبردستی اُن کی رضامندی کے بغیر چندہ جمع نہ کریں۔

فتاوٰی شامی میں  ہے:

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.(وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."

(كتاب الوقف، 360/4، ط: سعید)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"جب  وہ بیل مسجد کونہیں دیے،بلکہ مدرسہ کودیے ہیں اور مدرسہ نےاُن کوفروخت کردیاتو اب زید کایہ کہناکہ "قیمت مسجد میں خرچ کی جائے"بے محل ہے،قابل اتباع نہیں ۔وہ قیمت مدرسہ میں ہی صرف کی جائے"۔

(بقیۃ کتاب الوقف، باب مایتعلق بالمدارس، الفصل الثانی فی مصارف المدرسۃ واستبدالھا، 464/15، ط: ادارہ الفاروق)

وفیہ ایضًا:

"ایک مدرسہ کی وقف کی آمدنی دوسرے مدارس یاامارتِ شرعیہ کے تعاون میں صرف کرناجائز نہیں"۔

(بقیۃ کتاب الوقف، باب مایتعلق بالمدارس، الفصل الثانی فی مصارف المدرسۃ واستبدالھا،465/15، ط: ادارہ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101904

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں