میں نے ایک زمین لےکر اس پر ایک مدرسہ قائم کیا یعنی زمین مدرسہ کےلیےوقف کردی ،اس مدرسہ میں محلہ کے بچے ناظرہ قرآن کریم پڑھنےآتے ہیں ،وہ مدرسہ میرے ماتحت ہی ہے ،اب مجھ پر کافی قرضہ آگیاہے،میں پوچھنا چاہتاہوں ، کیا میں اس مدرسہ کی جگہ کوبیچ کر اپناقرض ادا کرسکتاہوں اور بقیہ رقم کسی اور مدرسہ میں لگادوں؟ کیا اسی جگہ کو بیچ کراس کی رقم کو دوسرے مدرسہ میں دے سکتاہوں،جب میں قرض ادا کرنے کے لیے نہ لے سکوں ؟ کیا میرے مرنے کے بعداس مدرسہ کی جگہ میں میراث جاری ہوگی؟
واضح رہے کہ وقف جب درست اور صحیح ہوجائے تو موقوفہ چیز قیامت تک واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے زمین مدرسہ کے لیے وقف کردی ہے اور اس میں بچوں کو پڑھانابھی شروع کردیا ہے تو یہ وقف صحیح اور تام ہوگیا ہے، اس کے بعد اب نہ اس وقف شدہ زمین کوبیچاجاسکتاہے اور نہ اس سے کوئی اورذاتی نفع حاصل کیا جاسکتا ہے لہذا اس زمین کا جب بیچنا ہی صحیح نہیں ہے، تو اس کوبیچ کر اس کی رقم سے ذاتی قرضہ ادا کرنا یااس کی رقم کو دوسرے مدرسہ میں دینا صحیح نہیں ہے ۔
سائل (واقف) کے مرنے کے بعد مدرسہ کی جگہ میں میراث جاری نہیں ہوگی، بلکہ وہ بدستور وقف ہی رہے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فإذا تم ولزم لایملك ولایملك ولایعار ولایرهن". (الدر )
"قوله: لایملك أي لایکون مملوکا لصاحبه، ولایملك: أي لایقبل التملیك لغیره بالبیع ونحوه، لاستحالة تملیك الخارج عن ملکه، ولایعار ولایرهن لاقتضائهما الملك".
(کتاب الوقف، ج : 4 ، ص : 352 ، ط : دار الفکر)
فتاو ہندیہ میں ہے :
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."
(کتاب الوقف، ج :2، ص : 350 ، ط : دار الفکر)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
فتوی نمبر : 144601100213
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن