مدرسہ میں ہندو کا روپیہ لینا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ غیر مسلم سے مدرسہ کی تعمیر میں حصہ لینے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے تعاون کردے اور اس میں آگے چل کر کسی فتنے یا دخل اندازی کا اندیشہ نہ ہو، توغیر مسلم کا تعاون قبول کیا جاسکتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر ہندو نے مطالبے کے بغیر مدرسہ کے لیے کچھ تعاون کیا، تو اس کو مدرسہ میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے ، لیکن اگر کسی فتنہ یا دخل اندازی کا اندیشہ ہو یا کسی دلیل سے اس کے مال کے حرام وغصب وغیرہ کا ہونا ظاہر ہو تو لینا جائز نہیں ہوگا۔
و فی الأشباہو النظائر :
"وأما الوقف فلیس بعبادة وضعًا بدلیل صحته من الکافر."
( ص: 20،الناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان)
لمافي البحرالرائق:
"وأما اﻹﺳﻼم ﻓﻠﻴﺲ ﻣﻦ ﺷﺮﻃﻪ ﻓﺼﺢ وﻗﻒ اﻟﺬﻣﻲ ﺑﺸﺮط ﻛﻮﻧﻪ ﻗﺮﺑﺔً ﻋﻨﺪﻧﺎ وﻋﻨﺪﻫﻢ ..."
(ج:5، ص:204، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)
وفی الشامية:
أن شرط وقف اﻟﺬﻣﻲ أن ﻳﻜﻮﻥ ﻗﺮﺑﺔ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻭﻋﻨﺪﻫﻢ ﻛالوﻗﻒ ﻋﻠﻰ اﻟﻔﻘﺮاء أو ﻋﻠﻰ ﻣﺴﺠﺪ اﻟﻘﺪس."
(ج:4، ص:341، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144110201572
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن