بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسے کے لیے وقف مکان فروخت کرنے اور اس کی رقم کسی دوسری جگہ لگانے کا حکم


سوال

میں نے اور ایک خاتون نے  مل کر مدرسہ کے لیے ایک مکان خریدا، جس میں دو لاکھ میں نے اور ایک لاکھ اس خاتون نے دیے،اور کاغذات اس خاتون کے نام کردیے، اس دوران خاتون کا انتقال ہوگیا تو اس کے بھتیجے نے وہ مکان فروخت کردیا  13 لاکھ میں ،اب وہ کہتا ہے کہ میں نے وہ رقم ایک مسجد میں لگادی،اور اس کا بھی اس کے پاس ثبوت نہیں ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس کا یہ وقف شدہ مکان بیچنا شرعا جائز تھا؟ اور وہ جو کہتا ہے کہ میں نے یہ رقم مسجد میں لگادی اس کا کیا حکم ہے،اور ہمیں اس سے پوچھنے کا حق ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ وقف جب صحیح اور درست ہوجاتا ہے تو موقوفہ چیز واقفین کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، پھر اس چیز کا فروخت کرنا،ہبہ کرنا یا میراث میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا، اسی طرح جو چیز/جگہ جس مقصد  کےلیے وقف ہو اسے اسی مقصد میں استعمال کرنا شرعا ضروری ہوتا ہے، وہ چیز/جگہ کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال میں نہیں لائی جاسکتی۔

لہٰذا مکان اگر وقف تھا تو  مذکورہ شخص کے لیے مدرسہ کا وقف مکان فروخت کرنا جائز  ہی نہیں تھا، اور نہ ہی یہ بیع منعقد  ہوئی ہے،مذکورہ  شخص گناہ گار  بھی ہوا اور  رقم بھی اس کے لیےحرام ہے،،اب خریدار پر یہ مکان واپس کرنا ضروری ہے، اور مذکورہ شخص نے خریدار سے اس مکان کی مد میں جو رقم وصول کی تھی  اس پر وہ رقم  خریدار کو  واپس کرنا ضروری ہے، سائلہ یا جو  بھی شخص   اس مکان کا متولی اور نگران ہے اسے یہ حق ہے بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ شخص سے مدرسہ کا یہ وقف مکان واپس لے لے۔

فتح القدیر میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولايورث".

(6 / 203)  کتاب الوقف، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به". 

(فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية".

(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں