میں جس مدرسہ میں پڑھتا ہوں وہاں کسی بچہ کا موبائل پکڑا جاتاہے تو اس کو ہمیشہ کے لیے ضبط کرلیتے ہیں، اور مدرسہ والے خود استعمال کرتے ہیں ، اور جب سال کے اخیر میں لینے جاتے ہیں ، تو کہتے ہیں کہ پانچ یا دس ہزار روپے دو تو آپ کو موبائل ملے گا، تو کیا یہ جائز ہے؟
واضح رہے کہ طلبہ کی تربیت، تعلیمی یکسوئی اور انہیں غیر شرعی امور میں مشغول ہونے سے بچانے کے لیے مدرسے کی حدود میں طلبہ کے موبائل کے استعمال پر پابندی لگانا تو درست ہے، لیکن کسی طالب علم کی طرف سے ضابطے کی خلاف ورزی پر مذکورہ طرزِ عمل درست نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مدرسہ والوں کا طلبہ کا موبائل ضبط کے خود استعمال کرنا ، اور سال کے اخیر میں پانچ یا دس ہزار روپے لے کر واپس کرنا یہ سب مالی جرمانہ میں آتا ہے، جو کہ جائز نہیں ہے۔ البتہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ طالب علم کا موبائل ضبط کرکے اس کے سرپرست کو بلایا جائے اور مدرسے کے ضابطے کی پابندی کے حوالے سے ان کی تحریری ضمانت لے کر موبائل حوالہ کردیا جائے یا موبائل ضبط کرکے محفوظ رکھا جائے اور سال مکمل ہونے پر خود استعمال کیے بغیر جس حالت میں موبائل لیا تھا اسی حالت میں واپس کردیا جائے۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"والإنسان لا يملك التصرف في ملك غيره من غير رضاه".
(کتاب النکاح ، فصل بيان شرائط الجواز والنفاذ ج: 2 ص: 237 ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق".
(کتاب الحدود ، فصل فی التعذیر ج: 2 ص: 167 ط: دارالفکر )
مجمع الانہر میں ہے :
"ولا يكون التعزير بأخذ المال من الجاني في المذهب".
(کتاب الحدود ، باب التعزیر ج: 1 ص: 609 ط: المطبعة العامرة)
البحر الرائق میں ہے :
"وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ".
(کتاب الحدود ، باب التعزیر ج: 5 ص: 44 ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاو ی شامی میں ہے :
"والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".
(کتاب الحدود ، باب التعزیر ج: 4 ص: 62 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504101898
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن