بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے طالب علم کا قیمت دے کر مدرسے کا کھانا گھر لے جانا


سوال

کیا کسی مدرسہ کا طالب علم قیمت دے کر مدرسہ کا کھانا گھر  لے جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر  جس  طالبِ  علم کو مدرسہ کی طرف سے   ٹوکن یا پیسے جمع کر کے  کھانا  تملیک کے طور پر  دیا جاتا ہو اور مدرسہ کی انتظامیہ کی طرف سے اس کی اجازت بھی ہو،  یعنی کوئی انتظامی مشکل اور رکاوٹ نہ ہو تو ایسی صورت میں طالبِ علم کو دیا جانے والا کھانا طالبِ علم کی ملکیت ہوجاتا ہے،  لہذا اس کے لیے کھانا گھر لے جانا جائز ہوگا۔

البتہ تملیک کے بغیر ملنے والا کھانا جو عام دعوت وغیرہ کی صورت میں دیا جاتا ہے یا عطیات وغیرہ سے کھلانے کا انتظام کیا جاتا ہے وہ تملیک کی بجائے اباحت کے درجہ میں ہوتا ہے، جسے مدرسہ کے نظم کے مطابق مدرسہ میں کھانے کی اجازت تو ہوگی، گھر لےجانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

شرح مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال". 

(الكتاب العاشر في انواع الشركات، الباب الثالث في المسائل المتعلقة لحيطان والجيران، 1 / 230، ط: رشيدية)

تفسير القرطبي  میں ہے:

"{فإذا طعمتم فانتشروا} في هذه الآية دليل على أن الضيف يأكل على ملك المضيف لا على ملك نفسه، لأنه قال:{فإذا طعمتم فانتشروا}فلم يجعل له أكثر من الأكل، ولا أضاف إليه سواه، وبقي الملك على أصله".

(سورة الأحزاب، الآية: 35، 14 /227، ط: دار المصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں