بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے لیے کمیشن پر چندہ جمع کرنا


سوال

اگر مدرسہ کا مہتمم سالانہ چھٹیوں میں مدرسہ کے کسی مدرس کو چندہ کے لیے بھیجے اور اس کے ساتھ یہ معاہدہ طے کیاجائے کہ جتنا چندہ ہوگا اس کا ایک تہائی سفیر کا ہوگا،  یا یہ بات طے ہوجائے ہر لاکھ پر سفیر کو ایک ہزار بطور انعام ملیں گے یعنی ماہانہ تنخواہ کے علاوہ پورا سال ہر ماہ لاکھ کے حساب سے ہزار روپیہ بھی ملا کرے گا۔

آیا یہ دونوں صورتیں جائز ہیں یا نہیں؟

جواب

(1)واضح رہے کہ مدارس کے لیے چندہ  کرنے والے (سفراء)عاملین میں داخل نہیں ہے، کیوں کہ یہ حضرات اسلامی حکومت کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مامور نہیں ہے، لہٰذا سفراء کی تنخواہ  زکوٰۃ سے دینا جائز نہیں اور نہ ان کے سفری اخراجات زکوٰۃ کی مد سے ادا کئے جاسکتے ہیں، البتہ  مدرسہ والے چندہ کی رقم کے بغیراپنے امدادی فنڈ میں سے تنخواہ مقرر کر کے اسے دے سکتے ہیں۔

(2)چندہ یا زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے کمیشن پر سفیر مقرر کرنا جائز نہیں، اگر مدرسہ کے چندہ کرنے کے لیے تنخواہ دار ملازم  ہے تو اس کی اچھی کارکردگی کی وجہ سے تنخواہ کے علاوہ بطور انعام فی صد کمیشن غیر زکوۃ سے دینا جائز ہے، لیکن زکوٰۃ کے پیسے سے کمیشن دینا جائز نہیں، بلکہ زکوٰۃ کا پیسہ مدرسہ میں جمع کرانا لازم ہے  اور یہ انعام مدرسہ اپنے امدادای فنڈ میں سے دے سکتا ہے، اور اگر تنخواہ دار ملازم نہیں ہے تو کمیشن پر چندہ کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اجرت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اجارہ فاسدہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعامل يعم الساعي والعاشر۔۔۔قوله: يعم الساعي هو من يسعى في القبائل لجمع صدقة السوائم والعاشر من نصبه الإمام على الطرق ليأخذ العشر ونحوه من المارة."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:339، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها العامل) وهو من نصبه الإمام لاستيفاء الصدقات والعشور كذا في الكافي."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:188، ط:رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه۔۔۔جاز إلا إذا نص على التعويض."

(كتاب الزكوة،باب مصرف الزكوة والعشر، ج:2، ص:356، ط:سعيد)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الفساد۔۔۔وقد يكون ‌لجهالة ‌البدل."

(كتاب الإجارة، الباب الخامس عشر في بيان مايجوز من الإجارة ومالايجوز، ج:4، ص:439، ط:رشيديه)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال (8160): ہمارے یہاں مدرسہ کا چندہ ہوتا ہے ، اس میں سفراء کمیشن بھی لیتے ہیں ،  یہ کہاتک درست ہے، اور جائز ہے یا نہیں؟

الجواب حامداومصلياً:اس طرح معاملہ کرنا کہ جس قدر چندہ لاؤ گے اس میں سے نصف یا ثلث وغیرہ تم کو ملے گا ، شرعاً درست نہیں ، اس میں اجرت مجہول ہے  نیز اجرت ایسی چیز کو قرار دیا گیا ہے جوعمل اجیر سے حاصل ہونے والی ہے کہ یہ دونوں چیز میں شرعا مفسد اجارہ ہیں ۔"

(کتاب الاجارۃ، باب اجرۃ الدلال والسمسار، ج:16، ص:629، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاوی شامی میں ہے:

"وتفسد الإجارة بجهالة المسمى كله و بعضه."

(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،  ج:6، ص:48، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ولو دفع غزلا لآخر لينسجه بنصفه أو إستأجر بغلا ليحمله طعامه ببعضه."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:56، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں