بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ پر قبضہ ہونے کے خدشہ کی بنیاد پر اسے فروخت کر کے دوسری جگہ اس رقم سے مدرسہ کی جگہ خریدنے کا حکم


سوال

ایک قدیم مدرسہ ہے جس کی فی الحال صورتِ حال یہ ہے کہ اس مدرسہ کے اکثر حصہ پر تقریباً 1500 فٹ پر قبضہ ہو چکا ہے اور اس میں ایک گھنٹہ شعبہ ناظرہ کی تعلیم ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد مستورات کا بازار بن چکا ہے جس کی وجہ سے مدرسہ کے آمنے ،سامنے دائیں بائیں دکانیں بن چکی ہیں ،ان وجوہات کی وجہ سے موجودہ انتظامیہ کی رائے یہ ہے کہ اس مدرسہ کی بقیہ زمین جو کہ 500 فٹ باقی ہے بیچ کر اس کی مکمل رقم سے دوسری جگہ عمارت خرید کر مدرسہ  قائم کیا جائے کیا اس طرح کرنا ٹھیک ہے یا نہیں ؟ نیز جس 1500 فٹ پر اثر ورسوخ  رکھنے والے حضرات نے جو قبضہ کیا ہے وہ باقاعدہ عمارت کی شکل میں تھا اس کی تعمیرات پر دکانیں بنالی ہیں اور اب قوی اندیشہ ہے کہ بقایا 500 فٹ پر بھی قبضہ کریں گے۔

جواب

واضح رہے کہ وقف تام ہونے کے بعد وقف شدہ زمین سے جب تک فائدہ اٹھانا ممکن ہوتو کسی دوسری زمین سے اس کا استبدال جائز نہیں۔

صورت مسئولہ میں مدرسہ کے لیے  وقف  کردہ زمین کوسوال میں ذکر کردہ  وجوہات کی بنیاد پر   فروخت کرکے اس کی قیمت سے دوسری جگہ  مدرسہ  قائم کرنا جائز نہیں ہے،مذکورہ جگہ مدرسہ کی حالت میں برقرار رکھنا ضروری ہے ۔مدرسہ کی انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ مدرسہ کی املاک کی حفاظت کرتی اور ناجائز قبضہ کرنے والوں کو قبضہ سے باز رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتی ،اور اگر وہ بے بس تھی تو فوراً  ایسی انتظامیہ کے حوالے کرتی جو مدرسہ کی املاک کی حفاظت اور اسے صحیح مصرف میں استعمال کرنے کی اہل ہو ،بہرحال اب بھی انتظامیہ کو چاہیے کہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کر کے مدرسہ کی جگہ پر سے قبضہ چھڑانے کی کوشش کریں ۔اگر مدرسہ کی انتظامیہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتی ہو تو مدرسہ کا انتظام ایسے لوگوں کے حوالے کرے جو مدرسہ کی جگہ کی حفاظت کر سکیں اور اسے بحسن و خوبی چلا سکیں ۔

            فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال ۔۔۔۔۔۔۔الخ"۔

 (کتاب الوقف ،مطلب فی استبدال الوقف وشروطہ،ج4،ص384،ط:سعید)

            فتاوی ہندیہ میں ہے:

"سئل شمس الأئمة الحلواني عن مسجد أو حوض خرب لا يحتاج إليه لتفرق الناس هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد آخر أو حوض آخر؟ قال: نعم، ولو لم يتفرق الناس ولكن استغنى الحوض عن العمارة وهناك مسجد محتاج إلى العمارة أو على العكس هل يجوز للقاضي صرف وقف ما استغنى عن العمارة إلى عمارة ما هو محتاج إلى العمارة؟ قال: لا، كذا في المحيط".

(کتاب الوقف ،الباب الثالث عشر في الأوقاف التي يستغنى عنها،ج2،ص478،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں