بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی اوپر کی منزل پر ذاتی رہائشی گھر بنانے کا حکم


سوال

 ایک مدرسہ جو کہ وقف ہے جس کے گراؤنڈ فلور پر تعلیم القران جاری ہے اس کی دوسری منزل پر ذاتی رہائش گاہ تعمیر کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ واقف نے جس مقصد کے لیے کسی جگہ کو وقف کیا ہے اس مقصد  یا اس مقصد کے مصالح  میں اس جگہ کا استعمال کرنا ضروری ہے، واقف کے متعین کردہ مقصد کے خلاف اس جگہ کا استعمال شرعًا جائز نہیں ہے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ میں مدرسہ کے لیے وقف کردہ جگہ جس میں  نچلی منزل پر تعلیم قرآن جاری ہے کسی شخص کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس مدرسہ کی زمین کی اوپر کی منزل میں اپنا ذاتی مکان بنائے  البتہ اگر اس مدرسہ کی اوپر کی منزل میں طلبہ یا اساتذہ کرام یا مہتمم  کے لیے  رہائش بنائی جائے تو اس کی اجازت ہوگی کیونکہ طلبہ، اساتذہ اور مہتمم  کی رہائش مدرسہ کے مصالح میں سے ہے۔نیز یہ بھی واضح رہے کہ اس صورت میں بھی رہائش گاہ کی ملکیت مدرسہ کی ہی ہوگی، وہ رہائش گاہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قولهم: شرط الواقف ‌كنص ‌الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به فيجب عليه خدمة وظيفته أو تركها لمن يعمل، وإلا أثم لا سيما فيما يلزم بتركها تعطيل الكل من النهر."

(کتاب الوقف ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۳۳، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال الخصاف في وقفه: إذا جعل داره سكنى للحاج فليس للمجاورين أن يسكنوها وإذا مضى يوم الموسم يؤاجرها وينفق غلتها وما فضل عن ذلك فرق على المساكين، كذا في الظهيرية."

(کتاب الوقف، باب ثانی عشر ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۶۷،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.

(وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك.

(قوله: بأن بنى رجلان مسجدين) الظاهر أن هذا من اختلافهما معا أما اختلاف الواقف ففيما إذا وقف رجلان وقفين على مسجد (قوله: لا يجوز له ذلك) أيأي الصرف المذكور، لكن نقل في البحر بعد هذا عن الولوالجية مسجد له أوقاف مختلفة لا بأس للقيم أن يخلط غلتها كلها، وإن خرب حانوت منها فلا بأس بعمارته من غلة حانوت آخر؛ لأن الكل للمسجد ولو كان مختلفا لأن المعنى يجمعهما اهـ ومثله في البزازية تأمل. [تنبيه] قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان الوقف منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوى. اهـ"

(کتاب الوقف ج نمبر۴ ص نمبر ۳۶۰،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں