بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے اوپر مسجد میں نماز با جماعت کی صورت میں خواتین کا بیسمنٹ سے اقتدا کرنے کا حکم


سوال

طالبات کے مدرسے کے اوپر مسجد ہے اور مدرسے کے نیچے بیسمنٹ بھی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا نیچے بیسمنٹ میں مستورات جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں؟  اس طرح کہ امام اوپر جس جگہ کھڑا ہے اس کی  پچھلی صف کے برابر نیچے بیسمنٹ میں مستورات نماز پڑھیں با جماعت،  جب کہ مسجد اور بیسمنٹ کے درمیان ایک منزل اور بھی ہے اور دوسرا یہ کہ مسجد کے با لکل ساتھ ایک کمرہ ہے ۔  اس کمرے میں صفیں کچھ اس طرح ہےکہ اس کی  پہلی صف مسجد کی پہلی صف کے برابر یا تھوڑی پیچھے ہے ، وہ کمرہ مہمانوں کا ہے اور وہاں مسجد آنے والے بچے پڑھتے ہیں  اور اس کو کسی حد تک مسجد کا حصہ نہیں بھی سمجھا جاتا وہ اس طرح کہ جو خواتین بامر مجبوری مسجد نہیں داخل ہو سکتی وہ اس کمرے میں جاتی ہیں بیان وغیرہ سننے تو کیا اس کمرے میں مستورات با جماعت نماز ادا کر سکتی ہیں؟ اس کمرے کا راستہ مدرسے سے بھی ہے اور مسجد سے بھی۔

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں جاکر نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ دور میں بعض مصالح (مثلاً خواتین کے لیے اسلامی عقائد اور اَحکام کی تعلیم) کی خاطر عورتوں کو مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن اسے بہتر اس وقت بھی نہیں سمجھا گیا،  لیکن خود رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے لیے جہاں تک ممکن ہو مخفی مقام پر اور چھپ کر نماز پڑھنے کو پسند فرمایا اور اسے ان کے لیے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے سے بھی زیادہ فضیلت اور ثواب کا باعث بتایا، چناں چہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون کمرہ میں نماز پڑھے یہ صحن کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے کے اندرچھوٹی کوٹھری میں نماز پڑھے، یہ کمرہ کی نماز سے بہتر ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے اور اسلامی احکام کی تکمیل اور تعلیم کا مقصد پورا ہونے کے بعد جب عورتوں کے خروج کی ضرورت بھی نہ رہی اور ماحول کے بگاڑ کی وجہ سے فتنے کا اندیشہ ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں (خصوصاً جوان عورتوں) کے نماز میں حاضر ہونے سے منع فرمادیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اعتراض نہیں کیا، بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ وہ حالت دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کردی ہے تو عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیتے۔

ان وجوہات کی بنا پر حضرات فقہائے کرام نے یہ فتوی دیا ہے کہ عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ مسجد شرعی مسجد کے حکم میں نہیں ہے، اور مسجد شرعی  کے علاوہ کسی گھر یا بلڈنگ یاعمارت  میں نماز باجماعت ادا کرتے ہوئے صفوں کے درمیان بالفعل اتصال ضروری ہے، جس کے نتیجہ میں  کسی ایک  منزل میں ادا کی جانے والی نماز میں شمولیت صرف اس صورت میں درست ہوگی  جب کہ صفوں میں اتصال ہو، پس اگر اتصال نہ ہو تو جماعت میں شرکت درست نہ ہوگی، لہذا صورتِ  مسئولہ میں خواتین کا نیچے بیسمنٹ سے اقتداء کرنا جب کہ درمیان میں ایک منزل کا فاصلہ ہے، نماز جائز نہیں ہوگی، ایسی صورت میں خواتین کو چاہیے  کہ وہ اپنے گھروں میں  انفرادی نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں اور مذکورہ کمرہ بھی چوں کہ مسجد سے خارج ہے، لہذا اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔

'بخاری شریف' میں ہے:

"عن عائشة، رضي الله عنها، قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم."

(كتاب الأذان، باب خروج النساء إلي المساجد بالليل والغلس، ج: 1، ص: 524، رقم: 869، ط: بشري)

سنن ابوداؤد میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها."

(كتاب الصلاة، باب ما جاء في خروج النساء إلي المسجد، ج: 1، ص: 264، رقم: 570، ط: بشري)

الدر مع الرد میں ہے:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية.

و في الرد: (قوله: ولو عجوزاً ليلاً) بيان للإطلاق: أي شابةً أو عجوزاً نهاراً أو ليلاً (قوله: على المذهب المفتى به) أي مذهب المتأخرين. قال في البحر: وقد يقال: هذه الفتوى التي اعتمدها المتأخرون مخالفة لمذهب الإمام وصاحبيه، فإنهم نقلوا أن الشابة تمنع مطلقاً اتفاقاً. وأما العجوز فلها حضور الجماعة عند الإمام إلا في الظهر والعصر والجمعة أي وعندهما مطلقاً، فالإفتاء بمنع العجائز في الكل مخالف للكل، فالاعتماد على مذهب الإمام. اهـ. قال في النهر: وفيه نظر، بل هو مأخوذ من قول الإمام، وذلك أنه إنما منعها لقيام الحامل وهو فرط الشهوة بناء على أن الفسقة لاينتشرون في المغرب؛ لأنهم بالطعام مشغولون وفي الفجر والعشاء نائمون؛ فإذا فرض انتشارهم في هذه الأوقات لغلبة فسقهم كما في زماننا بل تحريهم إياها كان المنع فيها أظهر من الظهر. اهـ. قلت: ولايخفى ما فيه من التورية اللطيفة. وقال الشيخ إسماعيل: وهو كلام حسن إلى الغاية (قوله: واستثنى الكمال إلخ) أي مما أفتى به المتأخرون لعدم العلة السابقة فيبقى الحكم فيه على قول الإمام، فافهم."

(شامي، كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 1، ص: 566، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا كان بينهما حائط لايصح الاقتداء إن كان كبيرًا يمنع المقتدي الوصول إلى الإمام لو قصد الوصول إليه اشتبه عليه حال الإمام أو لم يشتبه، كذا في الذخيرة. ويصح إن كان صغيرًا لايمنع أو كبيرًا وله ثقب لايمنع الوصول، وكذا إذا كان الثقب صغيرًا يمنع الوصول إليه، لكن لايشتبه عليه حال الإمام سماعًا أو رؤيةً هو الصحيح، وأما إذا كان الحائط صغيرًا يمنع، ولكن لايخفى حال الإمام، فمنهم من قال: يصح الاقتداء، وهو الصحيح، هكذا في المحيط."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الرابع في بيان ما يمنع صحة الاقتداء وما لا يمنع، ج: 1، ص: 88، ط: رشيدية)

وفيه أيضا:

"ولو قام على دكان خارج المسجد متصل بالمسجد يجوز الاقتداء لكن بشرط اتصال الصفوف. كذا في الخلاصة."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الرابع في بيان ما يمنع صحة الاقتداء وما لا يمنع، ج: 1، ص: 88، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں