بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے سفراء کا مدرسہ کو ملنے والا سامان فروخت کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص ایک گودام اور چند سوزوکیاں خریدتا ہے، اور پھر سوزوکیاں کرائے پر دیتا ہے، جن کو کرایہ پر دیتا ہے، وہ کسی مدرسہ سے تصدیق نامہ حاصل کرکے اس مدرسہ کے سفیر بن جاتے ہیں اور چندہ اکٹھا کرتے ہیں۔

چندہ میں نقدی جو ملتی ہے، وہ تو مدرسہ میں جمع کروادیتے ہیں، البتہ جو سامان مثلاً کپڑے، جوتے، کمبل وغیرہ ملتے ہیں، وہ گوادام والے شخص کو فروخت کردیتے ہیں، اور پھر گودام کا مالک انہیں بازار میں فروخت کردیتا ہے، یہ کام سفراء کبھی تو مدرسہ کے منتظمین کی اجازت سے کرتے ہیں اور کبھی بغیر اجازت بھی کرتے ہیں، نیز سفراء اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ سوزوکی کے مالک ہی کو فروخت کریں۔

1: اب سوال یہ ہے کہ سفراء کے لیے مدرسہ کے نام پر لی گئی اشیاءفروخت کرنا کیسا ہے؟

2:گودام والے کا سفراء سے خریدنا اور آگے فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟

3:گودام والے سے یہ اشیاء خریدنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

1:واضح رہے کہ مدرسہ سے تصدیق نامہ حاصل کرنے کے بعدسفراء ٗ مدرسہ اور مخیر حضرات دونوں کے وکیل ہوتے ہیں، اور ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو مال جس حالت میں ان کو دیاگیا ہے، اسی حالت میں وہ مال مدرسہ کے منتظمین کے حوالے کردیا جائے، اس مال میں چوں کہ سفراء کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ اس لیے سفراء کا مخیر حضرات یا منتظمین کی اجازت کے بغیراس مال میں تصرف کرنا حلال نہیں ہے۔

تاہم اگر مخیر حضرات اس کو بیچنےاور رقم مدرسہ میں جمع کرانے کی اجازت دے دیں، تو ایسی صورت میں اس مال کو فروخت کرنا جائز ہوگا، ایسے ہی مدرسہ کی انتظامیہ کو یہ بات معلوم ہوجانے کے بعد کہ سامان کس کس نوعیت کا ہے، اگر فی الحال ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے وہ  سفراء کو اس سامان کو فروخت کرنے کی اجازت دے دیں، تو ایسی صورت میں بھی ان کے لیے وہ سامان بیچنا جائز ہوگا، لیکن دونوں کے علم میں لائے بغیر، سفراء کا اپنی مرضی سے وہ سامان فروخت کرنا جائز نہیں ہے، نیز یہ بھی واضح رہے کہ اجازت کی صورت میں سفراء کو وہ سامان عام قیمت سے کم میں بیچنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ معمولی کمی کی گنجائش ہے۔

2:اگر گودام والے شخص کو یہ معلوم ہے کہ یہ مدرسہ کا سامان ہے، تواس پر یہ تحقیق لازم ہے کہ سفیر نے مخیر حضرات اور منتظمین سے اس سامان کو فروخت کرنے کی اجازت لی ہے یا نہیں؟ اگر معلوم ہوجائے کہ اجازت نہیں لی ہے، تو اس کے لیے یہ مال خریدنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ یہ سفیر کے چوری کے گناہ میں شریک ہونے کے مترادف ہوگا۔

3: یہی حکم گودام والے سے خریدنے والے شخص کابھی ہے۔

باقی اگر سوزوکی کا مالک اسے کرائے پر اسی شرط پر دیتا ہے کہ سفیر مدرسہ کا مال اسی کو فروخت کریں گے، اور اگر سفراء اس شرط پر راضی نہ ہوں تو انہیں یہ سوزوکی کرائے پر بھی نہیں دیتا، تو اس شرط کی وجہ سے یہ اجارہ فاسد ہوجاتا ہے، اگر اس شرط کے ساتھ اجارہ کرلیا ہے، تو اس کو ختم کرنالازم ہے۔

السنن الکبری للبیهقي   میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:  من اشترى سرقة وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها."

(ص:٥٤٧، ج:٥، کتاب البیوع، ‌‌باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم، ط: دار الکتب العلمية)

الفتاوي الهندية میں ہے:

"الوكيل بالبيع يجوز بيعه بالقليل والكثير والعرض عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى وقال: لا يجوز بيعه بنقصان لا يتغابن الناس فيه ولا يجوز إلا بالدراهم والدنانير كذا في الهداية. ويفتى بقولهما في مسألة بيع الوكيل بما عز وهان وبأي ثمن كان كذا في الوجيز للكردري."

(ص:٥٨٨، ج:٣، کتاب الوکالة، الباب الثالث، ط: دار الفکر، بیروت)

وفيه أيضا:

"(وأما حكمها) فمنه قيام الوكيل مقام الموكل فيما وكله به، ولا يجبر الوكيل في إتيان ما وكل به إلا في دفع الوديعة بأن قال له: ادفع هذا الثوب إلى فلان فقبله وغاب الآمر، يجبر المأمور على دفعه هكذا في محيط السرخسي . . . ومنه أنه أمين فيما في يده كالمودع فيضمن بما يضمن به المودع ويبرأ به، والقول قوله في دفع الضمان عن نفسه."

(ص:٥٦٦، ج:٣، کتاب الوکالة، الباب الأول، ط: دار الفکر، بیروت)

الجوهرة النيّرۃ میں ہے:

"لا يجوز للوكيل أن يتصرف ‌إلا ‌فيما ‌جعل ‌إليه."

(ص:٢٤٥، ج:٢، کتاب آداب القاضی، ط: المطبعة الخيرية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى ركن العقد فخلوه عن شرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه حتى لو أجره داره على أن يسكنها شهرا ثم يسلمها إلى المستأجر أو أرضا على أن يزرعها ثم يسلمها إلى المستأجر أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه شهرا ثم يسلمه إلى المستأجر فالإجارة فاسدة لأن هذا شرط لا يقتضيه العقد وأنه شرط لا يلائم العقد، وزيادة منفعة مشروطة في العقد لا يقابلها عوض في معاوضة المال بالمال يكون ربا أو فيها شبهة الربا وكل ذلك مفسد للعقد."

(ص:١٩٤، ج:٤، کتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، ط: دار الكتب العلمية)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام   میں ہے:

"ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع بناء عليه يلزم الوكيل الضمان في الخصوصات التي يلزم الضمان فيها الوديع، ويبرأ الوكيل من الضمان أيضا في الخصوصات التي برئ فيها المستودع (البحر، الهندية) والقول قوله في دفع الضمان عن نفسه، بناء عليه المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفاء وقبض العين ودفعها من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده وعليه فإذا كان موجودا عينا فيلزم تسليمه عينا إلى موكله."

(ص:٥٦١، ج:٣، الکتاب الحادي عشر الوكالة، الباب الثالث، المادة: ١٤٦٣، ط: دار الجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں