بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسے کے سفیر کا چندہ میں کمیشن طے کرنا اور سفیر کو زکات دینا


سوال

آج کل بعض سفیر حضرات 50 فیصد پر چنده کرتے ہیں ،اور کہیں کہیں ایسا بھی ہے کہ تنخواہ 10000 ہے ،اور اس کے علاوہ چندہ میں سے 40 فیصد سفیروں کا ہے تو اس طرح فیصد پر چندہ کرنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو ایسے سفیروں کو زکوٰۃ اور صدقۂ فطر دینے سے ادا ہوگی یا نہیں ؟وضاحت فرما دیں ۔

 

جواب

واضح رہے کہ چندہ  جمع کرنے  والے  سفیر  کے لیے تنخواہ مقرر کرنا جائز ہے،  خواہ ماہانہ بنیاد پر تنخواہ طے کی جائے یا روزانہ کی بنیاد پر۔ لیکن اگر اس سفیر کی ماہانہ تنخواہ مقرر نہیں ہے، بلکہ یہ مقرر کیا گیاہے کہ جتنا چندہ جمع کرے گا اسی میں سے مخصوص فیصد  کے اعتبار سےکمیشن ملے گا، یہ طریقہ جائز نہیں ہے۔نیز اگر بلا تملیک   زکات کی مد میں سےسفیروں  کو اجرت دی جائے ،  تو زکاة دہندگان کی زکاة ادا نہ ہوگی،کیوں کہ زکات میں مستحق کو بلا عوض مالک بناکر دینا ضروری ہے۔

ہدایہ میں ہے:

"‌ولا ‌تصح ‌حتى ‌تكون ‌المنافع معلومة، والأجرة معلومة."

(كتاب الأجارات،٢٣٠/٣، ط:دار احياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثورًا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان".

[كتاب الإجارة،مطلب في الاستئجار على الطاعات،٥٦/٦،ط : دار الفكر]

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌ومنها ‌أن ‌تكون ‌الأجرة ‌معلومة. ومنها أن لا تكون الأجرة منفعة هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة. ومنها خلو الركن عن شرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه".

‌‌[الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها،٤١١/٤،ط : المطبعة الكبرى]

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسیرها فھي تملیك المال من فقیر مسلم غیر هاشمي ولامولاہ بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه لله تعالی هذا في الشرع."

(کتاب الزکوۃ، الباب الاول فی تفسیرالزکوۃ،١٧٠/١،ط:مکتبه حقانیه)

وفیہ ایضا: 

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات ثم إلى أولادهم ثم إلى ذوي الأرحام ثم إلى الجيران ثم إلى أهل حرفته ثم إلى أهل مصره أو قريته كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الزكوة، الباب السابع فى المصارف،١٩٠/١، ط:مكتبه رشيديه)

وفیہ ایضا: 

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية."

(كتاب الزكوة،١٨٩/١، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں