بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی زمین پر دکان یا گھر بناکر کرایہ مدرسہ کے مصارف میں لگانے کا حکم


سوال

ایک زمین مدرسہ کے لیے وقف کی گئی تھی یعنی واقف نے یہ کہا تھا کہ اس زمین پر مدرسہ بنے، تو کیا اس وقف کی زمین پر دکان یا گھر تعمیر کرکے ان کا کرایہ مدرسہ کے مصارف میں لگانا جائز ہے؟

وضاحت: واقف نے وقف شدہ زمین متولی یعنی حالیہ مہتمم کے سپرد کرکے یہ کہا کہ اس زمین پر مدرسہ بناکر چلایا جائے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب واقف نے  مذکورہ زمین مدرسہ کے لیے وقف کی  ہےاور مہتمم کے حوالہ کرکے یہ تصریح کرکے کہا کہ’’ اس زمین پر مدرسہ بناکر چلایا جائے‘‘ اور مہتمم نے واقف کی تصریح پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئےمذکورہ زمین قبول کی،تو اس زمین پر مدرسہ بنانا ہی شرعاً ضروری ہے،مدرسہ کے علاوہ دکان یا گھر بنانا یا گھر بناکر  اس کا کرایہ مدرسہ کے مصارف میں لگانا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به فيجب عليه خدمة وظيفته أو تركها لمن يعمل، وإلا أثم."

(كتاب الوقف،ج:4،ص:433،ط:سعيد)

وفيه ايضاّ:

"(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن).

(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه."

(كتاب الوقف،ج:4،ص:352،ط:سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"في البزازية وقد تقرر في فتاوى خوارزم أن الواقف ومحل الوقف أعني الجهة إن اتحدت بأن كان وقفا على المسجد أحدهما إلى العمارة والآخر إلى إمامه أو مؤذنه والإمام والمؤذن لا يستقر لقلة المرسوم للحاكم الدين أن يصرف من فاضل وقف المصالح والعمارة إلى الإمام والمؤذن باستصواب أهل الصلاح من أهل المحلة إن كان الواقف متحدا لأن غرض الواقف إحياء وقفه وذلك يحصل بما قلنا أما إذا اختلف الواقف أو ‌اتحد ‌الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف."

(کتاب الوقف، ج:5، ص:233، ط:دار الکتاب الاسلامی)

وفیہ ایضاً:

" لايجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر".

(کتاب الوقف،ج:5،ج:234،ط:ط:دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية".

 (الباب الثانی فیما یجوز وقفہ،ج:2،ص:362، ط: رشیدیۃ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں