بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ سے عاریت پر لی گئی کتابیں ضائع ہوجائیں تو ذمہ دار کون ہوگا؟


سوال

ہمارے مدرسے میں ایک کتب خانہ ہے اور اس میں وقف کی کتابیں ہیں تو مدرسے کی انتظامیہ وہ کتابیں طلباء کو دیتی ہے تو دورانِ استعمال وہ کتابیں بے کار ہو جائیں یا کوئی طالب علم اس کو اپنے ساتھ لے جائے تو اس کی ذمہ داری مہتمم یا متولی پر ہے یا نہیں اور یہ کس طرح بری ہو ں گے؟

جواب

واضح رہے کہ عام طور پر مدارس میں اتنظامیہ کی طرف سے وقف کی کتابیں طلبہ کو دی جاتی ہیں وہ عاریت (عارضی استعمال ) کے طور پر دی جاتی ہیں اور عاریت پر دی جانے والی چیز شرعاً امانت کی ہوتی ہے، اس لیے عاریت کی  چیز سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ  جس مقصد کے لیے دی گئی ہے اسی کے مطابق کسی کوتاہی اور زیادتی کے بغیر استعمال کر کے اصل مالک کو واپس کر دی جائے۔

صورتِ مسئولہ میں مدرسہ کی طرف سے طلبہ کو پڑھنے کے لیے عاریت پر دی گئی وقف کی کتابیں اگر کسی طالبِ علم کی کوتاہی اور زیادتی کی وجہ سے ضائع ہوجائیں یا وہ مدرسہ کو واپس نہ کرے تو اس کا ذمہ دار طالبِ علم ہوگا اور اس پر ضائع ہونے والی کتاب کا ضمان لازم ہوگا،  مدرسہ کی انتظامیہ اس کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔  اور اس کا انتظام کرنا اتنظامیہ اور مہتمم کی ذمہ داری ہوگی۔

امدادا لاحکام میں ہے:

”وقف کتب خانہ سے مدرسین یا طلبہ کو مستعار کتابیں دینا جائز ہے یا نہیں؟

سوال:۔ ایک کتب خانہ وقف ہے جس کے متولیان حسبِ عمل در آمد واقف سابق متولی اس کتب خانہ سے کتب وقتًا فوقتًا قصبہ کے وقفی مدرسہ میں بغرض تعلیم ودرس ومطالعہ وغیرہ مدرسین وطلباء کو مستعار دیتے ہیں اور بیرون جات بھی بھیجتے ہیں پس ایسا تصرف متولیان کا جائز ہے یانہیں؟ دو بحثیں اس معاملہ میں لوگ کرتے ہیں۔

(1)یہ کہ وقف اس وجہ سے ہے کہ لوگ نفع اٹھائیں اس لئے دینا چاہئے۔

(2)یہ کہ امین کو امانت کا مستعار نہ دینا چاہئے ، پس کونسا قول صحیح مان کر اس پر عمل کرنا چاہئے دیگر یہ کہ بسا اوقات مستعار لینے والے یہاں سے کتاب یا جلد بوسیدہ ہوکر خراب حالت میں آتی ہے اس کی درستی کس کے ذمہ ہے؟ یا اگر خدانخواستہ کسی سے بحالت مستعار کتاب تلف ہوجائے تو ضمان کس کے ذمہ ہے پس کن شرائط پر دینا چاہئے یا نہ دینا چاہئے؟

الجواب

اس کتب خانہ سے مدرسین وطلبہ کو اسی شہر میں جس میں یہ کتب خانہ ہے کتب مستعار دینا جائز ہے اور شہر سے باہر بھیجنا جائز نہیں اور جو کتابیں خراب وبوسیدہ واپس آئیں یا ضائع ہوجائیں ان کے متعلق اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مستعیر نے قصداً کتاب کو خراب کیا یا حفاظت نہیں کی تو اس کا ضمان مستعیر پر ہے اور اگر اس نے قصداً ایسا نہیں کیا بلکہ بدون اس کے فعل کے اتفاقاً ایسا ہوگیا تو مستعیر پر ضمان نہیں...

قلت: والنقل منه فی هذہ البلدة لیس من النقل عرفًا، فان أهل المدارس یعیرون الکتب لطلبة العلم، وسکونتھم فی البلدۃ فی أمکنة شتی، ولاینکرہ الواقفون ولا أحد من العلماء، وأیضاً لایحصل الانتفاع بدونه فإن اجتماعهم فی المکتبة بأسرهم متعذر والنقل عن البلدۃ لایخلوا عن خطر الضیاع عادۃ فیمتنع إلا أن یکون الناقل من مدرس هذہ المدرسة أو متولی المکتبة وهو علی عزم الرجوع الی هذہ البلدۃ ففی‬ه مندرجة فی الجملة۔ واللّٰہ اعلم“

(کتاب الوقف: ج:3، ص:102.103، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

في الدر المختار:

"وفي الدرر وقف مصحفا على أهل مسجد للقراءة إن يحصون جاز وإن وقف على المسجد جاز ويقرأ فيه، ولا يكون محصورا على هذا المسجد وبه عرف حكم نقل كتب الأوقاف من محلها للانتفاع بها والفقهاء بذلك مبتلون فإن وقفها على مستحقي وقفه لم يجز نقلها وإن على طلبة العلم وجعل مقرها في خزانته التي في مكان كذا ففي جواز النقل تردد نهر"

وفي رد المحتار:

"مطلب في حكم الوقف على طلبة العلم (قوله: وإن على طلبة العلم إلخ) ظاهره صحة الوقف عليهم لأن الغالب فيهم الفقر كما علم من الضابط المار آنفا. وفي البحر قال شمس الأئمة: فعلى هذا إذا وقف على طلبة العلم في بلدة كذا يجوز لأن الفقر غالب فيهم، فكان الاسم منبئا عن الحاجة ثم ذكر الضابط المار.

قلت: ومقتضاه أنهم إذا كانوا لا يحصون يختص بفقرائهم، فعلى هذا وقف المصحف في المسجد والكتب في المدارس لا يحل لغير فقير وهو خلاف المتبادر من عبارة الخلاصة والقنية في المصحف. وقد يقال إن هذا مما يستوي في الانتفاع به الغني والفقير كما سيأتي من أن الوقف على ثلاثة أوجه: منها: ما يستوي فيه الفريقان كرباط وخان ومقابر وسقاية وعلله في الهداية بأن أهل العرف يريدون فيه التسوية بينهم لأن الحاجة داعية، وهنا كذلك فإن واقف الكتب يقصد نفع الفريقين ولأنه ليس كل غني يجد كل كتاب يريده خصوصا وقت الحاجة إليه. مطلب في نقل كتب الوقف من محلها...

(قوله: ففي جواز النقل تردد) الذي تحصل من كلامه أنه إذا وقف كتبا وعين موضعها فإن وقفها على أهل ذلك الموضع، لم يجز نقلها منه لا لهم ولا لغيرهم، وظاهره أنه لا يحل لغيرهم الانتفاع بها وإن وقفها على طلبة العلم، فلكل طالب الانتفاع بها في محلها وأما نقلها منه، ففيه تردد ناشئ مما تقدمه عن الخلاصة من حكاية القولين، من أنه لو وقف المصحف على المسجد أي بلا تعيين أهله قيل يقرأ فيه أي يختص بأهله المترددين إليه، وقيل: لا يختص به أي فيجوز نقله إلى غيره، وقد علمت تقوية القول الأول بما مر عن القنية وبقي ما لو عمم الواقف بأن وقفه على طلبة العلم لكنه شرط أن لا يخرج من المسجد أو المدرسة كما هو العادة وقدمنا عند قوله ولا يرهن عن الأشباه: أنه لو شرط أن لا يخرج إلا برهن لا يبعد وجوب اتباع شرطه وحمل الرهن على المعنى اللغوي تبعا لما قاله السبكي ويؤيده ما قدمناه قبيل قوله والملك يزول عن الفتح من قوله: إن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أن قولهم شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أن الواقف نفسه شرط ذلك حقيقة أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط وقد أخبرني بعض قوام مدرسة إن واقفها كتب ذلك ليجعل حيلة لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم. "

(کتاب الوقف: مطلب في حكم الوقف على طلبة العلم:ج:4،ص:365-366، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يوجب تغير حالها فالذي يغير حال المستعار من الأمانة إلى الضمان، ما هو المغير حال الوديعة، وهو الإتلاف حقيقة أو معنى بالمنع بعد الطلب أو بعد انقضاء المدة، وبترك الحفظ، وبالخلاف، حتى لو حبس العارية بعد انقضاء المدة أو بعد الطلب قبل انقضاء المدة يضمن؛ لأنه واجب الرد في هاتين الحالتين، لقوله - عليه الصلاة والسلام -: «العارية مؤداة» وقوله - عليه الصلاة والسلام -: «على اليد ما أخذت حتى ترده» ولأن حكم العقد انتهى بانقضاء المدة أو الطلب، فصارت العين في يده كالمغصوب، والمغصوب مضمون الرد حال قيامه، ومضمون القيمة حال هلاكه."

(کتاب العاریة، فصل بيان ما يوجب تغير حالها الخ: ج:6، ص: 218، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں