اگر کوئی شخص کسی مدرسے کے استاذ کو زکوٰۃ دے دے تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی یا نہیں؟
مدرسہ کے جس استاد کو زکوٰۃ دی گئی ہے، اگر وہ مستحقِ زکوٰۃ ہے (یعنی اُس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا اتنی مالیت کے بقدر نقدی یا سونا، چاندی یا حوائجِ اصلیہ سے زائد کسی قسم کا مال نہ ہو یا مال تو ہو ، مگر قرضہ اتنا ہو کہ اُسے منہا کرنے کی صورت میں چاندی کے نصاب کے بقدر نہیں بچتا ہو، نیز وہ سید بھی نہ ہو) تو ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے، اور اگر وہ مستحقِ زکوٰۃ نہ ہو اور مستحقِ زکوۃ ہونا معلوم بھی ہوتو زکوٰۃ ادانہیں ہوئی ہے، مذکورہ شخص پر زکوٰۃ کی ادائیگی دوبارہ لازم ہے۔
البتہ استادکے مستحقِ زکوٰۃ ہونے کی صورت میں بھی اُن کو تدریس وغیرہ کے عوض ( تنخواہ ) میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔
الدر مع الرد میں ہے:
"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك)...(جزء مال)...(عينه الشارع)...(من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه، وهذا معنى قول الكنز تمليك المال: أي المعهود إخراجه شرعا (مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى)."
(كتاب الزكوة، 2/256،258، ط: سعید)
وفيه أيضاً:
"ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه وإلا لا.
(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط."
(كتاب الزكوٰة، باب مصرف الزكوٰة والعشر، 2/356، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144307101491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن