بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں ذاتی پیسوں سے تعمیر کرنے کے بعد کرایہ پر دینا


سوال

ایک شخص نے اپنی زمین کو مدرسے کے لیے وقف کیا ، پھر تعمیر کا پیسہ نہیں تھا،  اس نے اپنا ذاتی ریٹائرمنٹ کا پیسہ لگا کر اس کی عمارت بنائی اور اس تعمیر میں کچھ رقم جو ایک ربع کے بقدر تھی وہ چندہ تعمیر کی مد میں ملا ، باقی رقم اس نے اپنی لگائی۔اب اس نے اس زمین کی یہ عمارت اقراء سکول کو کرایے پر دے دی  اور یہ بھی ارادہ ہے کہ اس کی عمارت کا کرایہ جو ملے گا اس سے مزید تعمیر بھی کرے گا ۔

اب سوال یہ ہے کہ:1۔ کیا عمارت اس شخص کی سمجھی جائے گی ؟اس عمارت کو کرایے پر دینا کیسا ہے ؟اس کرائے کو ذاتی استعمال میں لانا یا اسی عمارت کو مزید تعمیر کرنا کیسا ہے؟

2۔نیز اگر یہ شخص اس زمین کو اپنے قبضے میں لے لے اور اس کی جگہ اتنی ہی زمین مسجد مدرسے کے لیے وقف کردے تو کیسا  ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی زمین   وقف ہوجائے تو وقف کرنے والے کی ملکیت سے نکل جاتی ہے، اس کے بعد  واقف کے  لیے بھی اس کی خرید وفروخت کرنا یا اسے کسی اور مقصد کے لیے  استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا۔
لہذا صورتِ  مسئولہ میں  جب مذکورہ شخص نے  اپنی  زمین کو   مدرسہ کے  لیے وقف کر دیا  تو    وہ زمین تا قیامت  مدرسہ کے  لیے وقف رہے گی ۔ 

1۔مذکورہ عمارت  چوں کہ چندہ اور اس شخص کی ذاتی رقم سے تعمیر کی گئی ہے لہذا یہ عمارت بھی وقف ہے، اس شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ  یہ  عمارت  اسکول وغیرہ کو کرایہ پر دے۔

2۔اس  شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ  یہ موقوفہ زمین اپنے قبضے میں لے کر اس کی جگہ اتنی ہی زمین مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف کردے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه وعليه الفتوى ، وفی ردالمحتار: (قوله على حكم ملك الله تعالى) قدر لفظ حكم ليفيد أن المراد أنه لم يبق على ملك الواقف ولا انتقل إلى ملك غيره، بل صار على حكم ملك الله تعالى الذي لا ملك فيه لأحد سواه، وإلا فالكل ملك لله تعالى."

( كتاب الوقف ، ‌‌ قبيل مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة، ج:4، ص:339، 338،  ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"مطلب في استبدال الوقف وشروطه قوله ( وجاز شرط الاستبدال به الخ ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه الأول أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا والثاني أن لا يشرط سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه والثالث أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار…إلي قوله…لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف في الثالث إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال."

(كتاب الوقف، مطلب في استبدال الوقف وشروطه، ج:4، ص:384، ط:سعيد)

فتاوی  ہندیہ  ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."

(کتاب الوقف،الباب الأول في تعريفه وركنه وسببه وحكمه وشرائطه،ج2،ص350،ط؛دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"بنى المتولي في عرصة الوقف إن ‌من ‌مال ‌الوقف فللوقف، وكذا لو من مال نفسه، لكن للوقف ولو لنفسه من ماله، فإن أشهد فله وإلا فللوقف."

(‌‌مسائل شتى، ج:6، ص:747، ط:سعيد)

قانون العدل و الانصاف فی القضاء علی مشکلات الاوقاف لقدری پاشا "میں ہے:

"إذا بنى المتولي على الوقف بناء أو غرس شجرا في أرض الوقف ، فإن بنى اوغرس بمال الوقف فهو وقف ، سواء بناه للوقف أو لنفسه أو أطلق. وإن بناه أو غرسه من مال نفسه ، وذكر أنه للوقف أو أطلقه ولم يذكر شيئا، فهو للوقف أيضا . وإن أشهد قبل البناء والغراس أنه لنفسه ، يكون ملكا له ويكون متعديا في وضعه ، ويؤمر برفعه وقلعه إن لم يضر بالأرض ،فإن اضر فلا يملك رفعه ولا الانتفاع به وهو المضيع لماله ، فيتربص إلى أن ينهدمء وياخذ انقاضه ويقع الشجر ويأخذ حطبه ، ويفسق المتولي بذلك البناء ويستحق العزل إن كان الواضع هو الناظر فإن كان من مال الوقف ، فهو وقف ، وإن كان من مال نفسه ، فإن صرح بأنه للوقف أو لم يصرح بشيء ، فهو وقف أيضا . وإن صرحأنه لنفسه وأشهد على ذلك يكون ملكا له ، إلا أنه يكون متعديا بوضعه في أرض الوقف..وحينئذ يؤمر برفعه إن لم يضر بالأرض ، فإن أضر بها فلا يملك رفعه ولا الانتفاع به ، بل يكون هو المضيع لماله فينتظر إلى أن ينهدم البناء ويأخذ أنقاضه ويقع الشجر هذا فقد نصوا على أن المتولي يفسق بذلك فيستحق العزل."

(كتاب الوقف، الفصل الخامس  في بناء المتولي او الواقف  و غرسه في ارض الوقف،  مادة رقم:208، ص:363، ط:دارالسلام)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں