بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی چیزکومسجدمیں دینا


سوال

 ایک فرد نے مدرسے کے لیے کچھ ڈیسک خرید کر دیے ،لیکن مدرسے میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے بالکل استعمال نہیں ہوتے ، کیا وہ ڈیسک مسجد میں دے سکتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مدرسہ کے ڈیسک کومسجدمیں دیناجائزنہیں ہے،کیوں کہ واقف کی شرط کی رعایت کرناضروری ہے ،اورمتولی کو بھی یہ اختیارنہیں کہ ایک مدرسہ کے لیے وقف کی ہوئی چیزکو کسی مسجدیادوسرے مدرسہ میں دے،اگرمذکورہ مدرسہ میں یہ ڈیسک بالکل استعمال نہ ہوسکتےہوں اورآئندہ بھی استعمال میں آنے کی امیدنہ ہو تو اس ڈیسک کوفروخت کرکے اس کی رقم مدرسہ کے دیگرمصارف میں خرچ کی جائے،نیز بوقتِ ضرورت مسجد کے فنڈ سے مسجد کے لیے بھی خرید سکتے ہیں،اوراگرابھی ضرورت نہیں ہے لیکن مستقبل میں استعمال میں آسکتے ہیں توانہیں مخفوظ کرکے رکھاجائے تاکہ ضرورت کے وقت کام میں  لیاجاسکے ۔

البحر الرائق ميں ہے :

"أما إذا ‌اختلف ‌الواقف أو اتحد الواقف واختلفت الجهة بأن بنى مدرسة ومسجدا وعين لكل وقفا وفضل من غلة أحدهما لا يبدل شرط الواقف ... وقد علم منه أنه لا يجوز لمتولي الشيخونية بالقاهرة صرف أحد الوقفين للآخر."

(كتاب الوقف،وقف المسجد أيجوز أن يبنى من غلته منارة،ج:5،ص:234،ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے : 

"قال الخير الرملي: أقول: ومن اختلاف الجهة ما إذا كان ‌الوقف ‌منزلين أحدهما للسكنى والآخر للاستغلال فلا يصرف أحدهما للآخر وهي واقعة الفتوی."

(كتاب الوقف،مطلب في نقل أنقاض المسجد ونحوه،ج:4،ص:361،ط:سعید)

تبیین الحقائق مع حاشیہ شبلی  میں ہے:

"ويصرف نقضه إلى عمارته إن احتاج وإلا حفظه للاحتياج) أي إلى الاحتياج لأنه لا بد من العمارة وإلا فلا يبقى فلا يحصل صرف الغلة إلى المصرف على التأبيد فيبطل غرض الواقف فيصرفه للحال إن احتاج إليه وإلا يمسكه حتى يحتاج إليه كي لا يتعذر عليه أوان الحاجة ."

"قوله: وإلا يمسكه حتى يحتاج) قال الكمال وأنت تعلم أن بالانهدام تتحقق الحاجة إلى عمارة ذلك القدر فلا معنى للشرط في قوله إن احتاج إليه وإن استغنى عنه أمسكه حتى يحتاج وإنما المعنى أنه إن كان التهيؤ للعمارة ثابتا في الحال صرفه إليها وإلا حفظه حتى يتهيأ ذلك وتتحقق الحاجة فإن المنهدم قد يكون قليلا جدا لا يحل بالانتفاع بالوقف ولا يقربه من ذلك فيكون وجوده كعدمه فتؤخر حتى تحسن أو تجب العمارة وإن تعذرت إعادته بأن خرج عن الصلاحية فذلك لضعفه ونحوه باعه وصرف ثمنه في ذلك. اهـ. (قوله: في المتن ولا يقسمه بين مستحقي الوقف) بلفظ الجمع وقد سقطت النون للإضافة. اهـ. أتقاني (قوله لأنهم ليس لهم حق في العين) أي الموقوفة لأنها حق الله."

(كتاب الوقف،ج:3،ص:328،ط:دارالكتاب الاسلامي )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں