اگر کوئی شخص مدرسہ میں نہیں پڑھتا، لیکن پہلے اس نے اسی مدرسہ میں حفظ کیا ہے،پھر کبھی کبھی وہ اس مدرسہ میں جاتا ہے،تو ادھر اس کا کھانا کھانا کیسا ہے؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کا مدرسے کے مطعم سے قیمت ادا کیے بغیر کھانا کھانا جائز نہیں،وہ خود یا اس کی طرف سے کوئی طالب علم یا استاد قیمت ادا کرکے کھانا لےلے تو جائز ہوگا۔
فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:
"الذخيرة: الفقير إذا أباح للغني عين ما أخذ من الذكاة من الطعام، هل يحل له التناول؟ قال بعض المشايخ: يحل، وإليه مال شيخ الإسلام۔ الفقير إذا أيسر والصدقات التي أخذها قائمة في يده لا بأس بأن يتناول منها."
(کتاب الزکوٰۃ، الفصل: من توضع فیہ الزکاۃ، ج: 3، ص:199، ط: مکتبہ زکریا بدیوبند الھند)
وفیہ ایضاً:
"ولا تصرف فی بناء مسجد وقنطرۃ وفی شرح الطحاوی: ورباط، وفی شرح المتفق: ولا یبنی بھا قبر، ولا تقضیٰ بھا دین میت، ولا یعتق عبد، ولا یکفن میتا۔۔۔۔ والحیلۃ لمن أراد ذلک أن یتصدق ینوی الزکاۃ علی فقیر، ثم یأمرہ بعد ذلک بالصرف إلی ھذہ الوجوہ، فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب ھذا الصرف......أخرج البخاری حدیثا طویلا طرفہ ھذا: فقال: ھو لھا صدقۃولنا ھدیۃ. صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ علی موالی أزواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم، 1 / 202 ، برقم: 1471 ف: 1493."
(کتاب الزکوٰۃ، الفصل: من توضع فیہ الزکاۃ، ج: 3، ص:208، ط: مکتبہ زکریا بدیوبند الھند)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة
(قوله: تمليكا) فلا يكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويا الزكاة لا تكفي ط وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني وتقدم تمام الكلام على ذلك أول الزكاة."
( كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ٢ / ٣٤٤، ط: دار الفكر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144508101678
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن