بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کےکمرےکو اپنی ذاتی استعمال میں لانےکاحکم


سوال

ایک آدمی نےاپنی زمین مدرسہ کےلیےوقف کردی اور پھر عوام کےچندہ سےوہ مدرسہ تعمیر کرایا،کئی سالوں تک اس میں درس وتدریس کا سلسلہ بھی چلتارہا،واقف نےایک مفتی صاحب کومتولی بنایا تھااورتمام اختیارات اس کو سپرد کیےتھے،اس واقف کا بیٹا بھی اسی مدرسہ میں ایک طالبِ علم ہے،چند سالوں بعد واقف نےمدرسہ کی ایک معلمہ سےاپنےبیٹےکی شادی کرادی اور مدرسہ میں درسِ نظامی کےلیےبناہوا ایک کمرہ اس کی رہائش کےلیےمقررکیا،جب کہ اس نےاس مفتی صاحب کوجو متولی تھےمعزول کردیاہے،اب سوال یہ ہے کہ:

1۔کیاواقف  وقف میں اس طرح کا تصرف کرسکتاہے؟

2۔کیا واقف کو متولی کومعزول کرنےکا اختیار حاصل ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ واقف  جس مقصد کے لیے کسی جگہ کو وقف کردےتو اس جگہ کو اسی مقصد  یا اس مقصد کے مصالح  میں  استعمال کرنا ضروری ہے، واقف کے متعین کردہ مقصد کے خلاف اس جگہ کا استعمال شرعًا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں مدرسہ کے لیے وقف کردہ جگہ جس پر مدرسہ بنایا گیاہے، واقف سمیت کسی شخص کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس مدرسہ  کےکسی کمرہ کواپنا ذاتی رہائش گاہ بنائے ، البتہ چونکہ معلّمین اور معلّمات کی رہائش مدرسہ کے مصالح میں سے ہے،لہٰذا مذکورہ معلّمہ جس سےواقف نےاپنےبیٹے کی شادی کرائی ہے،اگراسی مدرسہ میں  معلّمہ ہے تو اس کےلیےمدرسہ کےکسی کمرہ کو رہائش کےلیے مہیا کرنا اور مقرر کرنا درست ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قولهم: شرط الواقف ‌كنص ‌الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به فيجب عليه خدمة وظيفته أو تركها لمن يعمل، وإلا أثم لا سيما فيما يلزم بتركها تعطيل الكل من النهر."

(کتاب الوقف، 433/4، ط: سعید)

2۔نیز واضح رہےکہ متولی کو کسی شرعی وجہ کے بغیر مثلاً خیانت کئے بغیر  معزول کرنا درست نہیں ہے،صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ متولی سےکوئی خیانت سرزد نہ ہوئی ہو تو واقف کو اس کےمعزول کرنےکا اختیار حاصل نہیں ہے۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کےجواب میں مذکور ہے:

الجواب:در مختار میں ہے:"ولا یولی إلاأمين إلخ"اس کا حاصل یہ ہےکہ متولی وہ شخص بنایا جائےجوامانت دار ہو اور قدرتِ انتظام رکھتاہو،اور یہ بھی کتبِ فقہ میں مسطورہےکہ بدونِ خیانت کےمتولی کو معزول کرنا درست نہیں ہے۔"

(وقف کی تولیت کےمسائل،242/13،ط:دارالاشاعت)

فتاوی مفتی محمودؒ میں ہے:

متولی اورامام میں جب تک کوئی شرعی نقص موجود نہ ہواس کو معزول کرنا جائز نہیں۔

(کتاب المساجد،800/1،ط:جمعیت پبلیکیشنز)

"تقریرات الرافعی على حاشية ابن عابدين" میں ہے:

"الذي حققه السندي بعبارة طويلة: ( أن الوصي أو  المتولي المنصوب من الواقف أو القاضي لو لم يتحقق من أحدهما خيانة، و أراد من عدا قاضي القضاة عزله، و إقامة غيره مقامه ممن هو أصلح منه و أورع فليس له ذلك، ولا يتولي ذلك إلا قاضي القضاة)."

(كتاب الوقف، 499/13، ط: دار الثقافة و التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں