والد محترم نے ایک بلڈنگ خریدی، اس میں سیکنڈفلور بیٹی کو مدرسہ کےلئے دیا تھا، والد صاحب نے کہا تھا کہ آپ اس فلور میں مدرسہ شروع کریں، اور یہ مدرسہ دو بہنیں مل کر چلاتی تھیں، والد ین کے انتقال کے کئی سال بعد تک یہ مدرسہ چلتارہا ، اور جب بھائیوں کو ضرورت پڑی تو بلڈنگ بیچ دی، دو بھائیوں نے مدرسہ چلانے کےلئے عارضی طور پر کچھ جگہ دی، اب ان میں سے ایک بھائی کو خود اس جگہ کی ضرورت ہے، وہ واپس کرنے کا مطالبہ کررہاہے، اس علاقے میں بس یہی ایک مدرسہ ہے اور اس میں تقریباً 40 کے قریب بچے پڑھتے ہیں ،اب یہ معلوم کرنا ہےکہ : والد مرحوم نے سیکنڈ فلور جو بیٹی کو مدرسہ کےلئے دیا تھا ،بعد میں ورثاء نے اس بلڈنگ کو بیچ کر رقم تقسیم کرلی، اس کے سیکنڈ فلور کی بیع درست تھی یا نہیں ؟ اب مدرسہ بند کرنے سے تو ہم گناہ گار نہیں ہوں گے ؟بھائی نے جو جگہ قیام مدرسہ کےلئے دی تھ، اب اس کی واپسی کامطالبہ درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے مرحوم والد کے ان الفاظ سے کہ ( آپ اس فلور میں مدرسہ شروع کرو ،پھر سائلہ نے اس فلور میں چند سالوں کےلئے مدرسہ بھی قائم رکھا ) یہ فلور وقف نہیں ہواتھا،لہذا والد کی وفات کے بعد ورثاء کا مذکورہ فلور بیچ کر رقم اپنے درمیان شرعی حصص کے مطابق تقسیم کرناجائز ہے۔
نیز بھائی نے جو جگہ عارضی طور پر مدرسہ کےلئے دی تھی تو اس کے مطالبے پر اس کو دینا لازم ہے۔اگر یہ جگہ بھائی کوواپس دینے سے مدرسہ ختم ہوتاہو اور آپ کے پاس وسائل بھی نہ ہوں تومدرسہ ختم ہونے میں آپ گناہ گار نہیں ہوں گے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وركنه الألفاظ الخاصة ك) أرضي هذه (صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه) من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر واكتفى أبو يوسف بلفظ موقوفة فقط قال الشهيد ونحن نفتي به للعرف".
(کتاب الوقف، ج:4، ص:340، ط: سعید)
فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:
"أما تفسيرها شرعا فهي تمليك المنافع بغير عوض،وهذا قول أبي بكر الرازي وعامة أصحابنا وهو الصحيح، هكذا في السراج الوهاج.
وأما ركنها فهو الإيجاب من المعير، وأما القبول من المستعير فليس بشرط عند أصحابنا الثلاثة استحسانا والإيجاب هو أن يقول أعرتك هذا الشيء أو منحتك هذا الثوب أو هذه الدار".
(کتاب العاریة، الباب الأول، ج:4، ص: 362، ط: المطبعةا لکبری الامیریه)
دررالحکام فی شرح مجلۃ الأحکام میں ہے:
"لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته".
(المقالة الثانیة، المادة:96، ج:1، ص: 96، ط: دار الجیل)
وفیه أیضاً :
"(المادة 97) لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي".
(المقالة الثانیة، المادة: 96، ج:1، ص: 98، ط: دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102240
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن