بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے زائد قرآن کریم فروخت کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسٔلہ ذیل کے بارے  میں کہ ایک مدرسہ میں پچاس بچے ہو ں اور قرآن مجید دوسوں ٢٠٠  ہوں یا اس سے زیادہ ہوں پوچھنا یہ ہے کہ قرآن مجید کو بیچ سکتے ہیں اور روپیہ کو مدرسہ کے کاموں میں صرف کر سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ قرآن کریم مدرسہ کے لیے وقف ہیں تو ان کو بیچنا جائز نہیں  ہےالبتہ قرآن کریم کے مصاحف اگر ضرورت سے زیادہ ہوں اور آئندہ بھی استعمال کی ضرورت نہ ہو تو قریب کے دوسرے مدرسہ میں اگر ضرورت ہو تو ان کو دے دیے جائیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)

(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه."

(کتاب الوقف جلد ۴ ص: ۳۵۱ ، ۳۵۲ ط: دارالفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"وإن وقف على المسجد جاز ويقرأ في ذلك المسجد وفي موضع آخر ولا يكون مقصورا على هذا المسجد."

(کتاب الوقف ، وقف المشاع جلد ۵ ص: ۲۱۹ ط: دارالکتاب الاسلامي)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"(سوال ۲۸)"ایک صاحب خیر نے مسجد میں تلاوت کے لیے قرآن وقف کیے ، ایک دوسرے آدمی نے پیسے دے کر وہ قرآن لے لیے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے برائے کرم تحریر فرمائیں کہ مسجد کا قرآن اس طرح بیچا جاسکتا ہے؟

(الجواب)مسجد کے وقف قرآن بیچنا جائز نہیں ، ضرورت سے زائد ہو اور کام میں نہ آتے ہوں تو قریب کی ضرورت مند مسجد میں دے دیے جائیں مسجد کو جب ضرورت نہ ہو تو لینا ہی نہیں چاہیے۔"

(کتا ب الوقف جلد ۹ ص:۴۸ ط:دار الاشاعت)

فقط و اللہ اعلم 
 


فتوی نمبر : 144404101015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں